نصرت چودھری کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    جو بھی چہرے ہیں خون سے تر ہیں

    جو بھی چہرے ہیں خون سے تر ہیں ہر طرف غم زدہ سے پیکر ہیں جن پہ لکھتے ہیں نام رشتوں کے میرے سینے میں ایسے خنجر ہیں روز محشر سے کیا ڈراتے ہو میرے آنگن میں سارے محشر ہیں ان کے چہرے کو جب سے دیکھا ہے آسماں چپ بجھے سے اختر ہیں جانے کیسے سفر میں ہوں نصرتؔ سارے منظر اداس منظر ہیں

    مزید پڑھیے

    خوابوں کی انجمن میں اجالا نہ ہو سکا

    خوابوں کی انجمن میں اجالا نہ ہو سکا چاہا تھا پھر بھی آج سویرا نہ ہو سکا احساس کی رگوں سے ٹپکتا رہا لہو ہم کو کسی سے پیار دوبارہ نہ ہو سکا آنسو مرے مزاج کا حصہ تو بن گئے جھکنا کسی بھی طور گوارا نہ ہو سکا میں شمع انتظار فروزاں کئے رہی چاہت کا اس طرف سے اشارہ نہ ہو سکا مرنے کی آرزو ...

    مزید پڑھیے

    رات بہت اندھیاری تھی

    رات بہت اندھیاری تھی جیون نیا بھاری تھی جانے لوگ دکھی تھے کیوں بازی ہم نے ہاری تھی روتے ہوئے کیوں لوگ اٹھے ہنس کر رات گزاری تھی کل ہی کا یہ قصہ ہے شام سحر پر بھاری تھی اس کی سج دھج نیاری تھی ہری بھری سی کیاری تھی اپنے سب آرام سے تھے بگڑی بات ہماری تھی رگ رگ میں اس کی ...

    مزید پڑھیے

    اس طرح خود کو ڈھونڈھتی ہوں میں

    اس طرح خود کو ڈھونڈھتی ہوں میں جیسے رستہ بھٹک گئی ہوں میں ساری دنیا کا دکھ ہے میرا دکھ ایک تصویر غم بنی ہوں میں ایک بجھتے چراغ کی مانند لمحہ لمحہ سلگ رہی ہوں میں دیکھ کر مجھ کو رو پڑے سب لوگ خود پہ کچھ اس طرح ہنسی ہوں میں اپنا امکاں تلاش کیسے کروں ایک ندیا رکی رکی ہوں میں

    مزید پڑھیے

    رہ نوردی کا سبق کام اس کے آخر آ گیا

    رہ نوردی کا سبق کام اس کے آخر آ گیا پھر پلٹ کے دشت میں ٹوٹا مسافر آ گیا میں ہی کچھ اپنے میں گم تھا ورنہ منظر تھا حسیں چاندنی میں ناچنے کو ایک طائر آ گیا اس سلگتی دھوپ میں اپنا خیاباں چھوڑ کر دیکھ لے وہ زخم کھانے تیری خاطر آ گیا سارے رشتے سانپ بن کر ڈس گئے نصرتؔ مجھے تھا فریب ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    قیدی

    اونگھتی رات دبے پاؤں گزرتی چلی جاتی ہے اور چاندی کے طشت جیسا چاند نیم کی ٹہنیوں کے درمیاں پھنس گیا ہے ہوا چلے تو ٹہنیاں لچکیں اور یہ چاند ان کی گرفت سے آزاد ہو کر اپنی راہ لے

    مزید پڑھیے

    خود فریبی

    کب تک اپنی آنکھیں جھکا کر چلتی رہو گی کب تک اپنے دل کے دروازے پر دستک نہ دو گی کب تک اپنی پلکوں پر جھوٹے خواب سجائے رکھو گی بولو کب تک آخر کب تک حادثوں کو تقدیر سمجھ کر چپکے چپکے احساسات کی آگ میں آٹھوں پہر جلتی رہو گی اپنے تازہ زخموں پر ہنس ہنس کر مسکراتی رہو گی کیا صدیوں تک یوں ہی ...

    مزید پڑھیے

    غم

    غم کو اک سوغات سمجھ کر گلے لگائیں زیست کی اندھی راہ گزر پر چلتے جائیں جب کے چاروں اور بھکاری سب ہی بھکاری سکھ کی بھکشا مانگ رہے ہیں سکھ کی چھایا کس نے دیکھی کس نے خوشبو کے نغموں کو چوما سکھ جیون میں جھوٹا سپنا پانی کے سینہ کا چھالا غم مخلص ہے غم سچائی غم کی تھاہ نہ دل نے پائی غم ...

    مزید پڑھیے