غم

غم کو اک سوغات سمجھ کر
گلے لگائیں
زیست کی اندھی راہ گزر پر
چلتے جائیں
جب کے چاروں اور بھکاری
سب ہی بھکاری
سکھ کی بھکشا مانگ رہے ہیں
سکھ کی چھایا کس نے دیکھی
کس نے
خوشبو کے نغموں کو چوما
سکھ جیون میں جھوٹا سپنا
پانی کے سینہ کا چھالا
غم مخلص ہے غم سچائی
غم کی تھاہ نہ دل نے پائی
غم اشکوں کے دیپ جلائے
راہ دکھائے
غم سے نصرتؔ ڈرنا کیا
غم کو اک سوغات سمجھ کر
آؤ گلے لگائیں
زیست کی اندھی راہ گزر پر
چلتے جائیں