خود فریبی

کب تک
اپنی آنکھیں جھکا کر چلتی رہو گی
کب تک
اپنے دل کے دروازے پر دستک نہ دو گی
کب تک
اپنی پلکوں پر جھوٹے خواب سجائے رکھو گی
بولو کب تک
آخر کب تک
حادثوں کو تقدیر سمجھ کر
چپکے چپکے احساسات کی آگ میں آٹھوں پہر جلتی رہو گی
اپنے تازہ زخموں پر ہنس ہنس کر مسکراتی رہو گی
کیا صدیوں تک یوں ہی ہوتا رہے گا
بولو کب تک
اب تو بولو
کب تک
اپنے آپ کو دھوکا دیتی رہو گی