قیدی
اونگھتی رات دبے پاؤں گزرتی چلی جاتی ہے اور چاندی کے طشت جیسا چاند نیم کی ٹہنیوں کے درمیاں پھنس گیا ہے ہوا چلے تو ٹہنیاں لچکیں اور یہ چاند ان کی گرفت سے آزاد ہو کر اپنی راہ لے
اونگھتی رات دبے پاؤں گزرتی چلی جاتی ہے اور چاندی کے طشت جیسا چاند نیم کی ٹہنیوں کے درمیاں پھنس گیا ہے ہوا چلے تو ٹہنیاں لچکیں اور یہ چاند ان کی گرفت سے آزاد ہو کر اپنی راہ لے
کب تک اپنی آنکھیں جھکا کر چلتی رہو گی کب تک اپنے دل کے دروازے پر دستک نہ دو گی کب تک اپنی پلکوں پر جھوٹے خواب سجائے رکھو گی بولو کب تک آخر کب تک حادثوں کو تقدیر سمجھ کر چپکے چپکے احساسات کی آگ میں آٹھوں پہر جلتی رہو گی اپنے تازہ زخموں پر ہنس ہنس کر مسکراتی رہو گی کیا صدیوں تک یوں ہی ...
غم کو اک سوغات سمجھ کر گلے لگائیں زیست کی اندھی راہ گزر پر چلتے جائیں جب کے چاروں اور بھکاری سب ہی بھکاری سکھ کی بھکشا مانگ رہے ہیں سکھ کی چھایا کس نے دیکھی کس نے خوشبو کے نغموں کو چوما سکھ جیون میں جھوٹا سپنا پانی کے سینہ کا چھالا غم مخلص ہے غم سچائی غم کی تھاہ نہ دل نے پائی غم ...