نصرت چودھری کی غزل

    جو بھی چہرے ہیں خون سے تر ہیں

    جو بھی چہرے ہیں خون سے تر ہیں ہر طرف غم زدہ سے پیکر ہیں جن پہ لکھتے ہیں نام رشتوں کے میرے سینے میں ایسے خنجر ہیں روز محشر سے کیا ڈراتے ہو میرے آنگن میں سارے محشر ہیں ان کے چہرے کو جب سے دیکھا ہے آسماں چپ بجھے سے اختر ہیں جانے کیسے سفر میں ہوں نصرتؔ سارے منظر اداس منظر ہیں

    مزید پڑھیے

    خوابوں کی انجمن میں اجالا نہ ہو سکا

    خوابوں کی انجمن میں اجالا نہ ہو سکا چاہا تھا پھر بھی آج سویرا نہ ہو سکا احساس کی رگوں سے ٹپکتا رہا لہو ہم کو کسی سے پیار دوبارہ نہ ہو سکا آنسو مرے مزاج کا حصہ تو بن گئے جھکنا کسی بھی طور گوارا نہ ہو سکا میں شمع انتظار فروزاں کئے رہی چاہت کا اس طرف سے اشارہ نہ ہو سکا مرنے کی آرزو ...

    مزید پڑھیے

    رات بہت اندھیاری تھی

    رات بہت اندھیاری تھی جیون نیا بھاری تھی جانے لوگ دکھی تھے کیوں بازی ہم نے ہاری تھی روتے ہوئے کیوں لوگ اٹھے ہنس کر رات گزاری تھی کل ہی کا یہ قصہ ہے شام سحر پر بھاری تھی اس کی سج دھج نیاری تھی ہری بھری سی کیاری تھی اپنے سب آرام سے تھے بگڑی بات ہماری تھی رگ رگ میں اس کی ...

    مزید پڑھیے

    اس طرح خود کو ڈھونڈھتی ہوں میں

    اس طرح خود کو ڈھونڈھتی ہوں میں جیسے رستہ بھٹک گئی ہوں میں ساری دنیا کا دکھ ہے میرا دکھ ایک تصویر غم بنی ہوں میں ایک بجھتے چراغ کی مانند لمحہ لمحہ سلگ رہی ہوں میں دیکھ کر مجھ کو رو پڑے سب لوگ خود پہ کچھ اس طرح ہنسی ہوں میں اپنا امکاں تلاش کیسے کروں ایک ندیا رکی رکی ہوں میں

    مزید پڑھیے

    رہ نوردی کا سبق کام اس کے آخر آ گیا

    رہ نوردی کا سبق کام اس کے آخر آ گیا پھر پلٹ کے دشت میں ٹوٹا مسافر آ گیا میں ہی کچھ اپنے میں گم تھا ورنہ منظر تھا حسیں چاندنی میں ناچنے کو ایک طائر آ گیا اس سلگتی دھوپ میں اپنا خیاباں چھوڑ کر دیکھ لے وہ زخم کھانے تیری خاطر آ گیا سارے رشتے سانپ بن کر ڈس گئے نصرتؔ مجھے تھا فریب ...

    مزید پڑھیے

    زیست کی گھڑیاں کہیں روتے رہے ہنستے رہے

    زیست کی گھڑیاں کہیں روتے رہے ہنستے رہے سادے کاغذ کے لکھے کو عمر بھر پڑھتے رہے زندگی تجھ سے عبارت ہے مری پہچان ہے ایک طوطے کی طرح بس یہ سبق رٹتے رہے ناامیدی کے اندھیروں میں کبھی ڈوبے نہ ہم چاند کی مانند ہم بڑھتے رہے گھٹتے رہے زندگی اپنی گزرتی کیوں نہ پھر آرام سے دوستوں سے ہم ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ہے ارمان کمسن کے لئے

    دل میں ہے ارمان کمسن کے لئے جی رہے ہیں سب اسی دن کے لئے ظرف پہ تھا میرے شاید شک انہیں دوستوں نے بدلے گن گن کے لئے ہم سفر جب کوئی بھی نہ مل سکا پیر میں چبھتے ہوئے تنکے لیے اصل چہرے دیکھنا چاہو اگر آئنے لے آؤ باطن کے لئے موت سے جب زندگی ڈرنے لگے دن گنو نصرتؔ جی اس دن کے لئے

    مزید پڑھیے

    رات بھر میں خواب بن کر اس کی وحشت دیکھتی

    رات بھر میں خواب بن کر اس کی وحشت دیکھتی کیف الفت میں جو مضمر ہے وہ شدت دیکھتی اک سلگتی آگ بن کر رہ گیا میرا وجود آگ جل کر راکھ ہو جاتی تو حدت دیکھتی معجزہ کچھ یوں ہوا یوسف زلیخا مل گئے مجھ کو میرا پیار مل جاتا تو قدرت دیکھتی بد کلامی پر وہ نادم ہے مجھے ہوتا یقیں اس کی آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے