جو بھی چہرے ہیں خون سے تر ہیں
جو بھی چہرے ہیں خون سے تر ہیں
ہر طرف غم زدہ سے پیکر ہیں
جن پہ لکھتے ہیں نام رشتوں کے
میرے سینے میں ایسے خنجر ہیں
روز محشر سے کیا ڈراتے ہو
میرے آنگن میں سارے محشر ہیں
ان کے چہرے کو جب سے دیکھا ہے
آسماں چپ بجھے سے اختر ہیں
جانے کیسے سفر میں ہوں نصرتؔ
سارے منظر اداس منظر ہیں