خوابوں کی انجمن میں اجالا نہ ہو سکا
خوابوں کی انجمن میں اجالا نہ ہو سکا
چاہا تھا پھر بھی آج سویرا نہ ہو سکا
احساس کی رگوں سے ٹپکتا رہا لہو
ہم کو کسی سے پیار دوبارہ نہ ہو سکا
آنسو مرے مزاج کا حصہ تو بن گئے
جھکنا کسی بھی طور گوارا نہ ہو سکا
میں شمع انتظار فروزاں کئے رہی
چاہت کا اس طرف سے اشارہ نہ ہو سکا
مرنے کی آرزو میں شب و روز جل بجھے
نصرتؔ کا زندگی سے کنارا نہ ہو سکا