رہ نوردی کا سبق کام اس کے آخر آ گیا
رہ نوردی کا سبق کام اس کے آخر آ گیا
پھر پلٹ کے دشت میں ٹوٹا مسافر آ گیا
میں ہی کچھ اپنے میں گم تھا ورنہ منظر تھا حسیں
چاندنی میں ناچنے کو ایک طائر آ گیا
اس سلگتی دھوپ میں اپنا خیاباں چھوڑ کر
دیکھ لے وہ زخم کھانے تیری خاطر آ گیا
سارے رشتے سانپ بن کر ڈس گئے نصرتؔ مجھے
تھا فریب چہرگی جس میں وہ شاعر آ گیا