Nazish Haidari

نازش حیدری

نازش حیدری کی غزل

    رہ وفا سے گریز کرنا ثبوت خود آگہی نہیں ہے

    رہ وفا سے گریز کرنا ثبوت خود آگہی نہیں ہے مقام دار و رسن سے ہٹ کر تو دور تک زندگی نہیں ہے یہی دلیل جواز مستی یہی ہے بنیاد مے پرستی عطائے پیر مغاں سے کمتر مذاق تشنہ لبی نہیں ہے نہ اب وہ سرگرمیٔ وفا ہے نہ شعلہ ساماں کوئی تمنا جنوں تڑپتا ہوا نہیں ہے نظر سلگتی ہوئی نہیں ہے ابھی رخ ...

    مزید پڑھیے

    سحر ملنے کو خود آئی ہے چلئے

    سحر ملنے کو خود آئی ہے چلئے حصار شب سے تو باہر نکلیے نظر آئے جہاں بھی کوئی رہبر وہیں سے راستہ اپنا بدلیے پڑے سے راستہ اپنا بدلیے کہ ٹھوکر کھائیے اور پھر سنبھلیے بہاروں نے تو چھوڑا گل کا دامن چمن کی خاک اب چہرے پہ ملیے جہاں کی سرد مہری کہہ رہی ہے کہ برفانی ہوا میں رہ کے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے دل سے رنگ غم نہ اترا

    ہمارے دل سے رنگ غم نہ اترا بھرا بھی زخم تو مرہم نہ اترا بہت تلخی تھی ناکامی کی لیکن خمار کوشش پیہم نہ اترا تحمل نے بہت طوفاں کیے جذب مگر دریائے شام غم نہ اترا بڑھی کچھ اور گل کی تشنہ کامی جگر میں قطرۂ شبنم نہ اترا نہ پہنچا طاق نسیاں تک کبھی ہاتھ دوبارہ ہم سے جام جم نہ ...

    مزید پڑھیے

    میں اک کشاکش امید و بیم تک پہنچا

    میں اک کشاکش امید و بیم تک پہنچا کبھی تپش کبھی موج نسیم تک پہنچا ہر ایک گام پہ تحقیق چاہتی تھی خرد بھٹک گیا تو رہ مستقیم تک پہنچا مری نگاہ نے دل میں ترے اتار دیا وہ لفظ جو نہ زبان کلیم تک پہنچا تمہاری یاد نے ماضی کا روپ دہرایا یہ ساز نو بھی نوائے قدیم تک پہنچا لیے چراغ شناسائی ...

    مزید پڑھیے

    ہم سانس بھی لینے کے سزاوار نہ ٹھہرے

    ہم سانس بھی لینے کے سزاوار نہ ٹھہرے ماضی کے خرابے کی بھی دیوار نہ ٹھہرے سو بار دھواں پھول کے سینے سے اٹھا ہے بادل کے قدم باغ میں اک بار نہ ٹھہرے یوں میری امیدوں کے محل ہو گئے مسمار جس طرح کوئی ریت کی دیوار نہ ٹھہرے پہنچا نئے حالات کے دھارے پہ سفینہ ممکن ہے مرے ہاتھ میں پتوار نہ ...

    مزید پڑھیے

    کھوئے ہوئے تھے اپنی ہی تنہائیوں میں ہم

    کھوئے ہوئے تھے اپنی ہی تنہائیوں میں ہم ابھرے ہیں ڈوب ڈوب کے گہرائیوں میں ہم رکھتے رہے نہ جانے کس انداز سے قدم ٹھہرے ہیں طاق حادثہ پیمائیوں میں ہم یہ اور بات ہونٹ کبھی تر نہ کر سکے ہر چند تیرتے رہے پروائیوں میں ہم عظمت ملے تو اس کے تعاقب میں رہ نہ جائیں اب تک تو پیش پیش ہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک نام جو گیسوئے غم کا شانہ تھا

    وہ ایک نام جو گیسوئے غم کا شانہ تھا وہ اک حسین تعارف جو غائبانہ تھا مرے جنوں پہ برستے رہے بہار کے پھول ہر ایک سنگ میں پنہاں نگار خانہ تھا رکے جو ہم تو ہوئی تیز گردش دوراں قدم بڑھائے تو ٹھہرا ہوا زمانہ تھا غم حیات کے دور عتاب میں نازشؔ مری ہنسی کا ہر انداز مجرمانہ تھا

    مزید پڑھیے

    جو ہے نئے وقت کا تقاضا تو یہ روش اختیار کر لوں

    جو ہے نئے وقت کا تقاضا تو یہ روش اختیار کر لوں کہ خار آنکھوں میں چن کے رکھ لوں دہکتے شعلوں کو پیار کر لوں چمن کی فطرت سمجھ رہا ہوں خزاں کو بھی جانتا ہوں لیکن اشارے کرتے ہیں غنچہ و گل کہ بندگیٔ بہار کر لوں یہ دیکھنا ہے رہ طلب میں ملیں گی گمراہیاں کہاں تک فریب منزل جو دے رہے ہیں میں ...

    مزید پڑھیے

    کسی عارضی خوشی کا بہ خوشی شکار ہوتا

    کسی عارضی خوشی کا بہ خوشی شکار ہوتا مجھے غم کی عظمتوں پر جو نہ اعتبار ہوتا یہ فروغ دشت و صحرا ہے شکست گلستاں سے نہ گلوں کا رنگ اڑتا نہ کہیں غبار ہوتا مرے نخل زندگی نے کئی رخ ہوا کے دیکھے کوئی رت کبھی نہ آتی تو سدا بہار ہوتا تری یاد اگر نہ ہوتی تو حیات کا سفینہ نہ عبور شام کرتا نہ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ سے ان کی آنسو نکلے

    آنکھ سے ان کی آنسو نکلے یا مٹھی سے جگنو نکلے پھول کھلے تو نگہت کم ہو زخم ہنسے تو خوشبو نکلے ساتھ اشکوں کے ایک تصور جیسے آپ لب جو نکلے تیرا دھیان آیا یوں جیسے برف کی وادی سے لو نکلے کھلتی کلی کو چوم لیا ہے ہاتھ مرے بے قابو نکلے ایک میں دنیا ایک میں عقبیٰ دونوں ہاتھ ترازو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2