کھوئے ہوئے تھے اپنی ہی تنہائیوں میں ہم
کھوئے ہوئے تھے اپنی ہی تنہائیوں میں ہم
ابھرے ہیں ڈوب ڈوب کے گہرائیوں میں ہم
رکھتے رہے نہ جانے کس انداز سے قدم
ٹھہرے ہیں طاق حادثہ پیمائیوں میں ہم
یہ اور بات ہونٹ کبھی تر نہ کر سکے
ہر چند تیرتے رہے پروائیوں میں ہم
عظمت ملے تو اس کے تعاقب میں رہ نہ جائیں
اب تک تو پیش پیش ہیں رسوائیوں میں ہم
ہو لاکھ سر پہ شعلہ فشاں زندگی کی دھوپ
چلتے رہیں گے موت کی پرچھائیوں میں ہم
ابھرے تھے ساتھ موج کے ڈوبے بھنور کے ساتھ
لے کر گئے ہیں سطح کو گہرائیوں میں ہم
یکجا ہوئے حیات کی چٹکی سے چونک کر
بکھرے ہوئے تھے ذات کی پہنائیوں میں ہم
نازشؔ ہمیں تو خار چمن بھی عزیز ہے
محدود کیا ہوں پھول کی رعنائیوں میں ہم