ہمارے دل سے رنگ غم نہ اترا
ہمارے دل سے رنگ غم نہ اترا
بھرا بھی زخم تو مرہم نہ اترا
بہت تلخی تھی ناکامی کی لیکن
خمار کوشش پیہم نہ اترا
تحمل نے بہت طوفاں کیے جذب
مگر دریائے شام غم نہ اترا
بڑھی کچھ اور گل کی تشنہ کامی
جگر میں قطرۂ شبنم نہ اترا
نہ پہنچا طاق نسیاں تک کبھی ہاتھ
دوبارہ ہم سے جام جم نہ اترا
ہوئی ظاہر نہ انساں کی حقیقت
لباس شادی و ماتم نہ اترا
تصور اب حقیقت بن گیا ہے
تمہارا عکس تم سے کم نہ اترا
سرایت کر گئی جب موت نازشؔ
کسی تدبیر سے یہ سم نہ اترا