سحر ملنے کو خود آئی ہے چلئے
سحر ملنے کو خود آئی ہے چلئے
حصار شب سے تو باہر نکلیے
نظر آئے جہاں بھی کوئی رہبر
وہیں سے راستہ اپنا بدلیے
پڑے سے راستہ اپنا بدلیے
کہ ٹھوکر کھائیے اور پھر سنبھلیے
بہاروں نے تو چھوڑا گل کا دامن
چمن کی خاک اب چہرے پہ ملیے
جہاں کی سرد مہری کہہ رہی ہے
کہ برفانی ہوا میں رہ کے جلیے
نہ رکھیے دھوپ کی تیزی ہمیشہ
کبھی تو سائے کے سانچے میں ڈھلیے
چٹانیں ہر طرف ہیں غم کی نازشؔ
جدھر چلنا ہو دریا بن کے چلئے