میں اک کشاکش امید و بیم تک پہنچا

میں اک کشاکش امید و بیم تک پہنچا
کبھی تپش کبھی موج نسیم تک پہنچا


ہر ایک گام پہ تحقیق چاہتی تھی خرد
بھٹک گیا تو رہ مستقیم تک پہنچا


مری نگاہ نے دل میں ترے اتار دیا
وہ لفظ جو نہ زبان کلیم تک پہنچا


تمہاری یاد نے ماضی کا روپ دہرایا
یہ ساز نو بھی نوائے قدیم تک پہنچا


لیے چراغ شناسائی میں جدھر بھی گیا
مغائرت کے دیار عظیم تک پہنچا


پیام بن کے مری زندگی کی جانب سے
نفس نفس مرے دل کے مقیم تک پہنچا


خوشی وہ لفظ کہ گزرا جو معنویت سے
تو میرے غم کی کتاب ضخیم تک پہنچا


مرے شعور میں شامل رہا طلب کا جنوں
میں شہر گل میں جو پہنچا شمیم تک پہنچا


جو برقرار سلامت روی رہی نازشؔ
کوئی حریف نہ طبع سلیم تک پہنچا