کسی عارضی خوشی کا بہ خوشی شکار ہوتا
کسی عارضی خوشی کا بہ خوشی شکار ہوتا
مجھے غم کی عظمتوں پر جو نہ اعتبار ہوتا
یہ فروغ دشت و صحرا ہے شکست گلستاں سے
نہ گلوں کا رنگ اڑتا نہ کہیں غبار ہوتا
مرے نخل زندگی نے کئی رخ ہوا کے دیکھے
کوئی رت کبھی نہ آتی تو سدا بہار ہوتا
تری یاد اگر نہ ہوتی تو حیات کا سفینہ
نہ عبور شام کرتا نہ سحر کے پار ہوتا
مری عظمت وفا سے وہ کبھی شکست کھا کر
مرا عزم چھین لیتے اگر اختیار ہوتا
تر و تازہ یوں نہ رہتے کبھی پھول مہر و مہ کے
چمن جہاں کا موسم جو نہ خوش گوار ہوتا
تھا اگرچہ منتظر میں اگر آپ آ بھی جاتے
تو تمام عمر اپنا مجھے انتظار ہوتا
جو نہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ترے جبر کا تسلسل
نظر احتجاج کرتی نہ نفس پکار ہوتا
مرے مسلک وفا میں تری دید تھی عبادت
جو نظر نہ تجھ پہ پڑتی میں گناہ گار ہوتا
مرا اشک خوں ہے نازش مرے تجربے کا حاصل
جو وفور غم میں ہنستا تو یہ شاہکار ہوتا