Nazish Haidari

نازش حیدری

نازش حیدری کی غزل

    ہم آج اپنے تصور میں بار بار آئے

    ہم آج اپنے تصور میں بار بار آئے گزشتہ عمر کئی مرتبہ گزار آئے بہار لالہ و گل اتنی مختصر کیوں ہو کہ اعتبار کی حد تک نہ اعتبار آئے گلوں کا جائزہ لے کر شمار کرتا ہوں مرے نصیب میں زخموں کے کتنے ہار آئے طلب شناس ستاروں کی انجمن میں گئے نظر سے وادیٔ مہتاب میں پکار آئے ہر ایک دل کو کیا ...

    مزید پڑھیے

    سراسر ان کو گلستان آرزو کہیے

    سراسر ان کو گلستان آرزو کہیے رکیں تو رنگ سمجھئے چلیں تو بو کہیے ہماری تشنگیٔ شوق کی ہے بات کچھ اور یہ وہ نہیں جسے دوران گفتگو کہیے مجھے شکست کا الزام بھی قبول مگر مقابل آئیے برباد جستجو کہیے سوال شوق کا اکثر جواب بنتی ہے تری نظر کی خموشی کو گفتگو کہیے ہماری تشنہ لبی کو نہ کر ...

    مزید پڑھیے

    اب دل میں آرزوؤں کے آثار دیکھنا

    اب دل میں آرزوؤں کے آثار دیکھنا ویرانیوں میں شہر نمودار دیکھنا کون آ گیا چراغ کی لو کس نے تیز کی شعلے سے ہو گیا ہے کسے پیار دیکھنا دو اشک چشم ناز کی دنیا بدل گئے اک برگ گل پہ اوس کی مقدار دیکھنا منصور اک گرفت میں منصور ہو گیا بندہ نوازیٔ رسن و دار دیکھنا یہ کون جھانکتا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2