ہم آج اپنے تصور میں بار بار آئے
ہم آج اپنے تصور میں بار بار آئے گزشتہ عمر کئی مرتبہ گزار آئے بہار لالہ و گل اتنی مختصر کیوں ہو کہ اعتبار کی حد تک نہ اعتبار آئے گلوں کا جائزہ لے کر شمار کرتا ہوں مرے نصیب میں زخموں کے کتنے ہار آئے طلب شناس ستاروں کی انجمن میں گئے نظر سے وادیٔ مہتاب میں پکار آئے ہر ایک دل کو کیا ...