رہ وفا سے گریز کرنا ثبوت خود آگہی نہیں ہے

رہ وفا سے گریز کرنا ثبوت خود آگہی نہیں ہے
مقام دار و رسن سے ہٹ کر تو دور تک زندگی نہیں ہے


یہی دلیل جواز مستی یہی ہے بنیاد مے پرستی
عطائے پیر مغاں سے کمتر مذاق تشنہ لبی نہیں ہے


نہ اب وہ سرگرمیٔ وفا ہے نہ شعلہ ساماں کوئی تمنا
جنوں تڑپتا ہوا نہیں ہے نظر سلگتی ہوئی نہیں ہے


ابھی رخ کائنات پر ہے سیاہیٔ شب کا رقص پیہم
یہ صبح کا آفتاب کیا ہے جو داغ شرمندگی نہیں ہے


سحر کے مونس ہیں لالہ و گل نجوم و مہتاب شب کے ساتھی
یہ سب مرے رازدار غم ہیں یہاں کوئی اجنبی نہیں ہے


نظر میں ہیں آج تک فروزاں وہ خواب کے مرمریں جزیرے
کہ جن کی خاموش رفعتوں پر کوئی کرن دھوپ کی نہیں ہے


امید کا دل سے ہے تعلق نہ جانے پھر بھی مآل کیا ہو
چراغ تک دسترس ہے لیکن گرفت میں روشنی نہیں ہے


ابھی ابھرتے ہوئے سویرے پہ ظلمت شب کی ہیں نگاہیں
میں ایسے ماحول میں ہوں نازشؔ جہاں ہنسی بھی ہنسی نہیں ہے