Nasiri Lakhnavi

ناصری لکھنوی

ناصری لکھنوی کی غزل

    یاد آتی ہے مجھے جب خوش بیانی آپ کی

    یاد آتی ہے مجھے جب خوش بیانی آپ کی کچھ نئے لفظوں میں کہتا ہوں کہانی آپ کی آپ نے پروا نہ کی میں قید ہستی سے چھٹا مہربانی ہو گئی نا مہربانی آپ کی قتل کی ضد ہے نزاکت سے نہیں اٹھتی ہے تیغ دیدنی ہے آج تو شان جوانی آپ کی جاننے والوں سے پردہ اس قدر بیکار ہے حسن ظاہر سب پہ اور یہ لن ترانی ...

    مزید پڑھیے

    یاس و حسرت درد و غم ان سب کی منزل ایک ہے

    یاس و حسرت درد و غم ان سب کی منزل ایک ہے بیکسی میں آفتیں اتنی ہیں اور دل ایک ہے وحشت قیس اور میرے غم کا حاصل ایک ہے واقعے یکسر جدا ہیں حسرت دل ایک ہے حالت قلب و جگر دیکھی یہ تیرے ہجر میں جان سے اک جا چکا ہے نیم بسمل ایک ہے بزم جاناں میں بہت جاتا تھا دل یادش بخیر یعنی اس گم گشتہ کے ...

    مزید پڑھیے

    کس طرح زخمی کیا تم نے نگاہ ناز سے

    کس طرح زخمی کیا تم نے نگاہ ناز سے رات بھر رویا کیا دل درد کی آواز سے میرے دل کو تم نے چھیڑا کچھ عجب انداز سے رنگ محفل بڑھ گیا اس ساز کی آواز سے دیکھتے ہیں وہ رخ بیمار اس انداز سے دل دھڑکتا ہے شکست رنگ کی آواز سے سامنے آ کوئی کہہ دے اس قدر انداز سے دیکھ دل بڑھتے ہیں تیرے تیر کی ...

    مزید پڑھیے

    دوبارہ زیست کہیں غم میں مبتلا نہ کرے

    دوبارہ زیست کہیں غم میں مبتلا نہ کرے وہ ساتھ غیر کے ہوں حشر میں خدا نہ کرے اداس ہوں کہ مرا دل نہیں ہے پہلو میں مری طرح کوئی مغموم ہو خدا نہ کرے سمجھ میں آئے جو برگشتگی مقدر کی مریض آپ کا مرنے کی بھی دعا نہ کرے جفا جو چاہے کرے ناصریؔ وہ دل آزار کسی غریب سے دل کو مگر جدا نہ کرے

    مزید پڑھیے

    دیکھ تو فرقت میں کیا کیا حال دل پر غم ہوا

    دیکھ تو فرقت میں کیا کیا حال دل پر غم ہوا رات بھر سینے میں اے ظالم بڑا ماتم ہوا دل کے مرنے سے جہاں کب درہم و برہم ہوا سینہ کوبی میں نے کی اتنا فقط ماتم ہوا طاقت فریاد آئی کچھ عجب عالم ہوا لو قیامت آ گئی درد جگر پھر کم ہوا ٹانکے ٹوٹے زخم دل کے بڑھ گیا جوش جنوں کھل گئیں کلیاں بہار ...

    مزید پڑھیے

    اس ستم گار نے سیکھا ہے خفا ہو جانا

    اس ستم گار نے سیکھا ہے خفا ہو جانا کیا قیامت ہوا نالوں کا رسا ہو جانا نزع میں بڑھ کے کھٹک دل سے یہی کہتی ہے آج تو درد کا ممکن ہے دوا ہو جانا لے کے پیغام قضا باد بہاری آئی نا مبارک ہوا زخموں کا ہرا ہو جانا عرش تھرائے گا اغیار کے دل ٹوٹیں گے نالہ کرتا ہوں مگر تم نہ خفا ہو جانا دم ...

    مزید پڑھیے

    قربان ہے سو جان سے تم پر گلہ کیسا

    قربان ہے سو جان سے تم پر گلہ کیسا دیکھو تو مرے دل نے کیا حوصلہ کیسا ہوتا ہے مگر قید کوئی آپ کا وحشی سنیے تو ہے زنداں کی طرف غلغلہ کیسا ہاں شدت درد جگری بزم میں لائی دل مر گیا اے دوست تو پھر ولولہ کیسا تو نے تو کہا ہے میں رگ جاں سے قریں ہوں اور ہجر کا ہے قول کہ یہ فاصلہ کیسا مر ...

    مزید پڑھیے

    دلبر کا کیا گلہ کوئی غم خوار بھی نہیں

    دلبر کا کیا گلہ کوئی غم خوار بھی نہیں پہلو میں آج تو دل بیمار بھی نہیں مرنا وہ جس کو حیلہ و آزار بھی نہیں قاتل وہ جس کے ہاتھ میں تلوار بھی نہیں تسکین دل محال ہے حالت کہے بغیر اس پر ستم کہ طاقت گفتار بھی نہیں محو جمال ہو کے مروں آرزو یہ ہے حالت یہ ہے کہ طاقت دیدار بھی نہیں اللہ ...

    مزید پڑھیے

    باتوں باتوں میں کیا خوں آج اک دلگیر کا

    باتوں باتوں میں کیا خوں آج اک دلگیر کا واہ کیا کہنا تری رنگینیٔ تقریر کا بے سبب کب ہے تڑپنا عاشق دلگیر کا سینے سے پیکاں نکلتا ہے تمہارے تیر کا نو گرفتاروں کی وحشت کا بھی ہو کچھ امتحاں آج سننا چاہیے نالہ نئی زنجیر کا باعث حیرت ہوا بیماری دل کا اثر دیکھو اب تو رنگ اڑتا ہے مری ...

    مزید پڑھیے

    اک قیامت ہے بپا شور دل دلگیر سے

    اک قیامت ہے بپا شور دل دلگیر سے اڑ گئے ٹکڑے فلک کے آہ کی تاثیر سے راز الفت کے عیاں ہونے کا ڈر جاتا رہا خامشی سیکھی ہے ہم نے بلبل تصویر سے چھیڑتا ہے کس لیے ناصح اسیر زلف کو دم الجھتا ہے تری الجھی ہوئی تقریر سے کس کا دل زخمی کیا تو نے ستم گر کیا کیا خوں ٹپکتا ہے لب سوفار و نوک تیر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2