کس طرح زخمی کیا تم نے نگاہ ناز سے
کس طرح زخمی کیا تم نے نگاہ ناز سے
رات بھر رویا کیا دل درد کی آواز سے
میرے دل کو تم نے چھیڑا کچھ عجب انداز سے
رنگ محفل بڑھ گیا اس ساز کی آواز سے
دیکھتے ہیں وہ رخ بیمار اس انداز سے
دل دھڑکتا ہے شکست رنگ کی آواز سے
سامنے آ کوئی کہہ دے اس قدر انداز سے
دیکھ دل بڑھتے ہیں تیرے تیر کی آواز سے
آج یہ راہ جنوں میں کس نے رکھا ہے قدم
ہل گیا سارا جہاں زنجیر کی آواز سے
بے پری سے رہ گئی بلبل کی ساری آرزو
در قفس کے وا ہیں اور مجبور ہے پرواز سے
اس قدر صدمہ ہوا رنگ گلستاں اڑ گیا
پر شکستہ بلبلوں کی حسرت پرواز سے
دیکھ کر جلوہ بھلا کیا ہوش میں رہتے کلیم
دل تو ٹکڑے ہو چکا تھا اک نئی آواز سے
دیکھنا ہے اس مہم میں کس طرح کرتا ہے صبر
امتحاں دل کا وہ لیں گے پاؤں کی آواز سے
موت کی ہے نیند سوتے ہیں شہیدان وفا
تو صدا دے جاگ اٹھیں شاید تری آواز سے
بزم میں ان کی گیا دل ناصریؔ میں بھی سنوں
آج کرتے ہیں جو باتیں وہ مرے ہم راز سے