Nasiri Lakhnavi

ناصری لکھنوی

ناصری لکھنوی کی غزل

    دل دھڑکنے لگا فریاد کی نوبت آئی

    دل دھڑکنے لگا فریاد کی نوبت آئی تم چلے اٹھ کے مری جان قیامت آئی آپ کے ظلم نے دی میری وفا کو شہرت کہ مرے خون سے بھی بوئے محبت آئی سچ ہے مرنے پہ نہیں کوئی کسی کا دل سوز شمع بھی بجھ گئی جس دم سر تربت آئی آہ سے میری زمیں ہل گئی تارے ٹوٹے میں یہ سمجھا کہ زمانے میں قیامت آئی مسکراتے ...

    مزید پڑھیے

    یوں مبتلا کسی پہ کوئی اے خدا نہ ہو

    یوں مبتلا کسی پہ کوئی اے خدا نہ ہو دل دے دیا ہو اور امید وفا نہ ہو تم بے نیاز ہو تو ہے قہر اس غریب پر جس کا بجز تمہارے کوئی آسرا نہ ہو محو خرام آپ ہیں بے چین اہل قبر مجھ کو یہ خوف ہے کہ قیامت بپا نہ ہو صدمے اٹھائے ہیں تو دعا ہے یہ ناصریؔ ان ظالموں پہ کوئی بشر مبتلا نہ ہو

    مزید پڑھیے

    میں تو عاجز ہوں تمہیں پوچھو دل ناکام سے

    میں تو عاجز ہوں تمہیں پوچھو دل ناکام سے کیوں تڑپ جاتا ہے سینے میں تمہارے نام سے سب پئیں ساقی رہیں محروم ہم اک جام سے ہو گئی برگشتہ قسمت گردش ایام سے ہجر کی زحمت سے آغاز جوانی میں مرے تھک گئے تھے ہم کچھ ایسی نیند آئی شام سے غیر کی تشنیع کا ہم دے نہیں سکتے جواب خون کی بوندیں ٹپکتی ...

    مزید پڑھیے

    جاں اپنی وقف زحمت ہجراں کئے ہوئے

    جاں اپنی وقف زحمت ہجراں کئے ہوئے عاشق ہر اک بلا کو ہیں مہماں کئے ہوئے سب منتشر ہیں میرے جنازے کو دیکھ کر تم ساتھ ہو جو حال پریشاں کئے ہوئے اب تو نفس کی آمد و شد بھی ہوئی ہے بند ایسی جگہ ہے سینے میں پیکاں کئے ہوئے کس واسطے یہ محویت آئینہ دیکھ کر کیوں آپ اک جہاں کو ہیں حیراں کئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2