اک قیامت ہے بپا شور دل دلگیر سے

اک قیامت ہے بپا شور دل دلگیر سے
اڑ گئے ٹکڑے فلک کے آہ کی تاثیر سے


راز الفت کے عیاں ہونے کا ڈر جاتا رہا
خامشی سیکھی ہے ہم نے بلبل تصویر سے


چھیڑتا ہے کس لیے ناصح اسیر زلف کو
دم الجھتا ہے تری الجھی ہوئی تقریر سے


کس کا دل زخمی کیا تو نے ستم گر کیا کیا
خوں ٹپکتا ہے لب سوفار و نوک تیر سے


خوف کیا گر ہوگا مجمع روز حشر اے ناصریؔ
میں اسے پہچان لوں گا خون دامن گیر سے