باتوں باتوں میں کیا خوں آج اک دلگیر کا
باتوں باتوں میں کیا خوں آج اک دلگیر کا
واہ کیا کہنا تری رنگینیٔ تقریر کا
بے سبب کب ہے تڑپنا عاشق دلگیر کا
سینے سے پیکاں نکلتا ہے تمہارے تیر کا
نو گرفتاروں کی وحشت کا بھی ہو کچھ امتحاں
آج سننا چاہیے نالہ نئی زنجیر کا
باعث حیرت ہوا بیماری دل کا اثر
دیکھو اب تو رنگ اڑتا ہے مری تصویر کا
بس بس اے ظالم کہاں تک امتحان ضبط آہ
اب تو دم گھٹنے لگا ہے عاشق دلگیر کا
مر گیا ہے آپ کا وحشی اداسی چھائی ہے
دیدنی ہے آج عالم خانۂ زنجیر کا
دل بھی دھڑکا آپ کا زلفیں بھی بل کھانے لگیں
اور ابھی زنداں میں نالہ ہے مری زنجیر کا