Munawwar Lakhnavi

منور لکھنوی

  • 1897 - 1970

بھگوت گیتا کا اردو میں منظوم ترجمہ کرنے کے لئے مشہور

Known for his Urdu translation of Bhagwat Geeta in verse titled- Naseem-e-Irfaan.

منور لکھنوی کی غزل

    ان سے برگشتہ نگاہی کے سوا کچھ نہ ملا

    ان سے برگشتہ نگاہی کے سوا کچھ نہ ملا آخر کار تباہی کے سوا کچھ نہ ملا دل کو ہر چند کریدا مگر اس کی تہ میں ایک بہکے ہوئے راہی کے سوا کچھ نہ ملا چاند تارے نگہ پاس میں نکلے بے نور آسمانوں میں سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا تجزیہ ان کے ارادوں کا جو کرنے بیٹھے غیر کی پشت پناہی کے سوا کچھ نہ ...

    مزید پڑھیے

    مے کدہ میرے لئے جائے تصادم تو نہیں

    مے کدہ میرے لئے جائے تصادم تو نہیں لاکھ نشہ ہے مگر ہوش مرے گم تو نہیں معترض کیوں ہے زمانہ مری بیتابی پر خامشی کی ہی ادا ہے یہ تکلم تو نہیں کیوں سفینہ مری ہستی کا ہو غرقاب فنا جزر و مد دل کا ہے دریا کا تلاطم تو نہیں اب خطا کوش نہ ہوں مجھ کو یہ تنبیہ بھی ہے اے خطا پوش یہ کچھ شان ...

    مزید پڑھیے

    حد امکاں سے آگے اپنی حیرانی نہیں جاتی

    حد امکاں سے آگے اپنی حیرانی نہیں جاتی نہیں جاتی نظر کی پا بہ جولانی نہیں جاتی لب خاموش ساحل سے سکوں کا درس ملتا ہے مگر امواج دریا کی پریشانی نہیں جاتی جہاں پہلے کبھی سب گوش بر آواز رہتے تھے وہاں بھی اب مری آواز پہچانی نہیں جاتی حقیقت کچھ تو اپنی آبرو کا پاس ہو تجھ کو ہزاروں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اس قدر ہے پریشاں نفس نفس میرا

    کچھ اس قدر ہے پریشاں نفس نفس میرا میں زندگی کو الٹ دوں چلے جو بس میرا کہاں کہاں نہ گیا حال دل سنانے کو بنا نہ کوئی کہیں پھر بھی داد رس میرا لئے پھروں گا ہمیشہ میں اس کی خاکستر رہے گا ساتھ مرے جل کے بھی قفس میرا میں سوچتا ہوں مآل حیات کیا ہوگا بجا ہے ضبط محبت میں پیش و پس ...

    مزید پڑھیے

    پھر کیا تھا جو پردے میں تھا رسوا تو نہیں تھا

    پھر کیا تھا جو پردے میں تھا رسوا تو نہیں تھا تھا راز محبت مگر افشا تو نہیں تھا تم جرم وفا پر جو ہو آمادۂ تعزیر یہ صرف مرے دل کا تقاضا تو نہیں تھا کیا سوچ کے آئی تھی اسے دیکھنے خلقت کچھ معرکۂ عشق تماشا تو نہیں تھا کیوں آ کے مرے غم کا سہارا ہوئی امید امروز کا غم تھا غم فردا تو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    حسن صد رنگ سے فردوس بہ داماں نکلا

    حسن صد رنگ سے فردوس بہ داماں نکلا ہم نے جس پھول کو دیکھا وہ گلستاں نکلا ہو گئے داد طلب اور بلاؤں میں اسیر حشر اک سلسلۂ زلف پریشاں نکلا اور کیا شے ہے یہ معراج محبت کے سوا آرزو آپ کی ہو کر مرا ارماں نکلا خاک میں گردش دوراں نے ملایا مجھ کو اور اس پر بھی میں سر حلقۂ دوراں نکلا اف ...

    مزید پڑھیے

    خود کو شرمندۂ بیداد کیا ہے کس نے

    خود کو شرمندۂ بیداد کیا ہے کس نے آج بھولے سے مجھے یاد کیا ہے کس نے کس نے پہلو میں یہ آہستہ سے چٹکی لی ہے دل کو مجبور بہ فریاد کیا ہے کس نے زندگی کو تو سمجھتا ہوں میں اک جور عظیم کیا خبر یہ ستم ایجاد کیا ہے کس نے ہے جو احسان تو کچھ حسرت جاوید کا ہے ورنہ پاس دل ناشاد کیا ہے کس ...

    مزید پڑھیے

    کیا کوئی سمجھے گا افسانہ مرا

    کیا کوئی سمجھے گا افسانہ مرا حال ہے سب سے جداگانہ مرا مے پلانا ہے تو یوں ساقی پلا ہو کبھی خالی نہ پیمانہ مرا تم بنا لیتے ہو اپنی داستاں جب الٹ جاتا ہے افسانہ مرا ظرف میرا میری ہمت دیکھ کر چوم لیتے ہیں وہ پیمانہ مرا اے منورؔ میں ہوں اک آزاد مرد مشرب و مسلک ہے رندانہ مرا

    مزید پڑھیے

    جب نظر جانب اسباب فنا کرتے ہیں

    جب نظر جانب اسباب فنا کرتے ہیں پہلے ہم اپنی طرف دیکھ لیا کرتے ہیں جن کو ہے طوق و سلاسل کے تقاضوں کا شعور وہی پابندی آئین وفا کرتے ہیں کاش ہم کو بھی بتا دیں یہ بتانے والے چوٹ لگتی ہے کوئی دل پہ تو کیا کرتے ہیں ترجمانی کا وسیلہ تو ہیں دراصل یہ اشک دل کے مطلب کو ہم آنکھوں سے ادا ...

    مزید پڑھیے

    سکوں مل گیا ہے قرار آ گیا ہے

    سکوں مل گیا ہے قرار آ گیا ہے کسی پر ہمیں اعتبار آ گیا ہے قفس میں بھی کیسی بہار آ گئی ہے قفس میں جو ذکر بہار آ گیا ہے ان آنکھوں کو دیکھا ہے مخمور جب سے ان آنکھوں میں بھی کچھ خمار آ گیا ہے ملا ہے دم صبح شبنم نے غازہ یہ کیوں روئے گل پر نکھار آ گیا ہے منورؔ کو دیکھا تو کچھ لوگ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4