مے کدہ میرے لئے جائے تصادم تو نہیں

مے کدہ میرے لئے جائے تصادم تو نہیں
لاکھ نشہ ہے مگر ہوش مرے گم تو نہیں


معترض کیوں ہے زمانہ مری بیتابی پر
خامشی کی ہی ادا ہے یہ تکلم تو نہیں


کیوں سفینہ مری ہستی کا ہو غرقاب فنا
جزر و مد دل کا ہے دریا کا تلاطم تو نہیں


اب خطا کوش نہ ہوں مجھ کو یہ تنبیہ بھی ہے
اے خطا پوش یہ کچھ شان ترحم تو نہیں


اس کی فریاد کا کیوں تم پہ اثر ہوتا ہے
اور کوئی ہے منورؔ کا خدا تم تو نہیں