پھر کیا تھا جو پردے میں تھا رسوا تو نہیں تھا

پھر کیا تھا جو پردے میں تھا رسوا تو نہیں تھا
تھا راز محبت مگر افشا تو نہیں تھا


تم جرم وفا پر جو ہو آمادۂ تعزیر
یہ صرف مرے دل کا تقاضا تو نہیں تھا


کیا سوچ کے آئی تھی اسے دیکھنے خلقت
کچھ معرکۂ عشق تماشا تو نہیں تھا


کیوں آ کے مرے غم کا سہارا ہوئی امید
امروز کا غم تھا غم فردا تو نہیں تھا


پھر کس لئے معتوب زمانہ تھا منورؔ
کہتا نہ غزل سوچ کے ایسا تو نہیں تھا