کچھ اس قدر ہے پریشاں نفس نفس میرا

کچھ اس قدر ہے پریشاں نفس نفس میرا
میں زندگی کو الٹ دوں چلے جو بس میرا


کہاں کہاں نہ گیا حال دل سنانے کو
بنا نہ کوئی کہیں پھر بھی داد رس میرا


لئے پھروں گا ہمیشہ میں اس کی خاکستر
رہے گا ساتھ مرے جل کے بھی قفس میرا


میں سوچتا ہوں مآل حیات کیا ہوگا
بجا ہے ضبط محبت میں پیش و پس میرا


کسی کے ساتھ منورؔ کیا ہو کچھ بھی سلوک
میں چاہتا ہوں کہ گائے نہ کئی جس میرا