Mohammad Sharfuddin Sahil

محمد شرف الدین ساحل

محمد شرف الدین ساحل کی غزل

    بلائے جاں ہے ثمر بد حواس ہونے کا

    بلائے جاں ہے ثمر بد حواس ہونے کا نتیجہ دیکھ لو تم خود اداس ہونے کا خط محیط ہے حبل الورید کے ہے قریب یقین رکھ تو اسے اپنے پاس ہونے کا ہوئے ہیں نیم برہنہ ہوس نے کھیتوں میں دیا نہ موقع ہی پیدا کپاس ہونے کا ہر اک خیال ہے نفس شریر کے تابع مگر ہے دعویٰ اسے حق شناس ہونے کا لپک کے چھین ...

    مزید پڑھیے

    دیتے ہیں جس کو خون جگر کم بہت ہی کم

    دیتے ہیں جس کو خون جگر کم بہت ہی کم آتے ہیں اس شجر پہ ثمر کم بہت ہی کم باقی ہیں اب بھی دل پہ مرے زخم حادثات احساس درد تو ہے مگر کم بہت ہی کم یہ منحصر ہے کسب حلال و حرام پر ہوتا ہے اب دعا میں اثر کم بہت ہی کم واعظ کی گفتگو میں جو دام فریب ہے پاتے ہیں اس سے لوگ مفر کم بہت ہی کم غواص ...

    مزید پڑھیے

    محفوظ نہیں ذوق ہوس دست فنا سے

    محفوظ نہیں ذوق ہوس دست فنا سے قدرت نے نوازا ہے محبت کو بقا سے ہر حرف مقدس ہے حقیقت کا محافظ منصور ہے معتوب انا الحق کی صدا سے ریشم کی طرح نرم ہے بے شک ترا لہجہ آئینۂ دل ٹوٹ گیا ضرب انا سے دزدیدہ نگاہی نے دکھایا یہ کرشمہ اچھا ہوا بیمار دوا سے نہ دعا سے تا عمر ستائے گی تجھے میری ...

    مزید پڑھیے

    دفعتاً ہو گئی گل شمع وفا تیرے بعد

    دفعتاً ہو گئی گل شمع وفا تیرے بعد خانۂ دل میں اجالا نہ ہوا تیرے بعد موسم جوش جنوں میں ہوا پامال چمن لے اڑی خوشبوئے گل باد صبا تیرے بعد جام مے شعلہ‌ٔ جوالہ نظر آتا ہے آگ برساتی ہے ساون کی گھٹا تیرے بعد باطنی کرب و اذیت میں بتاؤں کس کو کوئی ہم راز مجھے مل نہ سکا تیرے بعد جب بھی ...

    مزید پڑھیے

    سوچ اپنی بدل رہا ہوں میں

    سوچ اپنی بدل رہا ہوں میں کف افسوس مل رہا ہوں میں جو مسرت کو مات دیتی ہے فکر میں ایسی ڈھل رہا ہوں میں ظلمت شب میں روشنی کے لیے شمع کی طرح جل رہا ہوں میں مثل گل خوش نصیب ہوں کتنا بیچ کانٹوں کے پل رہا ہوں میں آتش غم لگی ہے سینے میں موم جیسا پگھل رہا ہوں میں ظلم پر احتجاج لازم ہے خون ...

    مزید پڑھیے

    مربوط کامیابی ہے وارستگی کے ساتھ

    مربوط کامیابی ہے وارستگی کے ساتھ رکھ راہ پر خطر میں قدم پختگی کے ساتھ پیاسا تڑپ رہا ہوں میں دریا کے پاس بھی ہے انتہائے ظلم مری تشنگی کے ساتھ ظلمت کدہ کو نور کا مسکن بنا دیا ہے روشنی کو ربط حسیں تیرگی کے ساتھ بس اس لیے خوشی کی عداوت کا ہوں ہدف وابستہ کیوں الم ہے مری زندگی کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسا ظلم و ستم بد قماش کرتا ہے

    یہ کیسا ظلم و ستم بد قماش کرتا ہے وہ بے گناہ کا دل پاش پاش کرتا ہے سکون قلب سے وہ شخص ہو گیا محروم ہوس کی قید میں فکر معاش کرتا ہے ملا ہے آج سبب یہ شکست پیہم کا مرا ہی دوست مرے راز فاش کرتا ہے یہ تیر اس کے تقدس کو کر گیا مجروح وہ بات کرتا ہے جب دل خراش کرتا ہے اسے مزاج منافق سے خاص ...

    مزید پڑھیے

    ہجوم غم میں بہر حال مسکرانا ہے

    ہجوم غم میں بہر حال مسکرانا ہے ہوا کے رخ پہ چراغ یقیں جلانا ہے ہے دل خراش بہت یاد میرے ماضی کی اسے حریم غزل میں مجھے سجانا ہے گنہ کے خوف سے انسان کانپ جاتا تھا یہ واقعہ تو ہے لیکن بہت پرانا ہے تمام شہر پہ حاکم کا جبر ہے غالب یہ کیا کہ ناز بھی اس کا ہمیں اٹھانا ہے جدید دور میں ...

    مزید پڑھیے

    دیکھیے انداز اس کی شوخیٔ تحریر کا

    دیکھیے انداز اس کی شوخیٔ تحریر کا پیرہن ہی خاک ہے ہر پیکر تصویر کا ضرب سے اس کی لرزتا ہے دل سنگ جبل تیشۂ عزم و یقیں ضامن ہے جوئے شیر کا اے عدو تو کامرانی پر ابھی شاداں نہ ہو سینۂ شمشیر میں باقی ہے دم شمشیر کا شہر کا منظر وبال جاں ہے میرے واسطے بن گیا وجہ سکوں حلقہ مری زنجیر ...

    مزید پڑھیے

    باعث راحت دل میرا مقدر نکلا

    باعث راحت دل میرا مقدر نکلا جس کو سمجھا تھا بیاباں وہ مرا گھر نکلا حسن معصوم کی تقدیس کو رسوا نہ کیا جتنا الزام ہے خوش ہوں کہ مرے سر نکلا ہے سبب روئے منور مری بربادی کا ہاتھ آیا تھا جو یاقوت وہ پتھر نکلا درس لو ہمت عالی سے مری دیوانو میں وہ دامن ہوں جو کانٹوں سے الجھ کر نکلا لٹ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2