Mohammad Sharfuddin Sahil

محمد شرف الدین ساحل

محمد شرف الدین ساحل کی غزل

    یوں مکافات عمل سب کچھ اٹھا کر لے گیا

    یوں مکافات عمل سب کچھ اٹھا کر لے گیا سر پھرا سیلاب بستی کو بہا کر لے گیا سایۂ رحمت سروں پہ ان کے رہتا ہے مدام جب بھی کوئی اپنے دشمن کو منا کر لے گیا جب کھلا باب ہدایت عشق بزم نور میں وادیٔ ظلمت سے عاصی کو اٹھا کر لے گیا سوز باطن سے میں رہتا ہوں مسلسل مضطرب خوف محشر نیند بھی میری ...

    مزید پڑھیے

    جبین دل پہ ندامت کا داغ رہتا ہے

    جبین دل پہ ندامت کا داغ رہتا ہے فلک پہ اس کا ہمیشہ دماغ رہتا ہے گل و ثمر سے لدا ہے ہر اک شجر لیکن گیا ہے کون کہ مغموم باغ رہتا ہے ترس رہا ہے اجالے کو خون سے جس کے حسین قصر میں روشن چراغ رہتا ہے انا کے خول سے باہر کبھی نہیں آتا وہ جس کا علم سے خالی ایاغ رہتا ہے جو کسب رزق میں نعمت ...

    مزید پڑھیے

    شہر مظلوم میں اک شخص بھی برہم نہ ملا

    شہر مظلوم میں اک شخص بھی برہم نہ ملا خوف اتنا تھا کوئی پیکر ماتم نہ ملا مان لوں کیسے کھلے گا گل امید مرا برگ الفت پہ مجھے قطرۂ شبنم نہ ملا جو مرے زخم اذیت کا مداوا کرتا چارہ گر تھک گئے ایسا کوئی مرہم نہ ملا شکوۂ گردش حالات سے حاصل کیا ہے دست تقدیر سے جو کچھ بھی ملا کم نہ ملا کٹ ...

    مزید پڑھیے

    الم کا بوجھ اٹھائے سفر میں رہتا ہے

    الم کا بوجھ اٹھائے سفر میں رہتا ہے جو بد نصیب مری چشم تر میں رہتا ہے وفا کی بھیک کوئی زر پرست کیا دے گا کثیر فائدہ اس کی نظر میں رہتا ہے تلاش راحت دنیا سے کیا غرض مجھ کو امین غم ہوں یہی میرے گھر میں رہتا ہے ملی مجھے اسی گردش میں عزم کی دولت سفینہ میرا ہمیشہ بھنور میں رہتا ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    موسم ہجر کی دل سوز نشانی دے گا

    موسم ہجر کی دل سوز نشانی دے گا عشق کا درد ہی عنوان کہانی دے گا سنگ بے مایہ ہے شک اور یقیں ہے گوہر وقت تقریر یہی شعلہ بیانی دے گا کھل نہ جائے کہیں مکتوب سے راز پنہاں جب وہ دے گا کوئی پیغام زبانی دے گا نفس امارہ کو قوت سے کچل دے اپنی ورنہ تکلیف تجھے عہد جوانی دے گا سیکھ لے اس کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2