دفعتاً ہو گئی گل شمع وفا تیرے بعد
دفعتاً ہو گئی گل شمع وفا تیرے بعد
خانۂ دل میں اجالا نہ ہوا تیرے بعد
موسم جوش جنوں میں ہوا پامال چمن
لے اڑی خوشبوئے گل باد صبا تیرے بعد
جام مے شعلۂ جوالہ نظر آتا ہے
آگ برساتی ہے ساون کی گھٹا تیرے بعد
باطنی کرب و اذیت میں بتاؤں کس کو
کوئی ہم راز مجھے مل نہ سکا تیرے بعد
جب بھی سلجھانا ہوں پیچیدہ مسائل مجھ کو
چومتا ہوں ترے نقش کف پا تیرے بعد
دل میں رہ رہ کے مرے روز چبھا کرتی ہے
خار بن کے تری ہر طرز ادا تیرے بعد
موت دراصل ہے تمہید حیات دائم
راز ہستی یہی ساحلؔ پہ کھلا تیرے بعد