دیکھیے انداز اس کی شوخیٔ تحریر کا

دیکھیے انداز اس کی شوخیٔ تحریر کا
پیرہن ہی خاک ہے ہر پیکر تصویر کا


ضرب سے اس کی لرزتا ہے دل سنگ جبل
تیشۂ عزم و یقیں ضامن ہے جوئے شیر کا


اے عدو تو کامرانی پر ابھی شاداں نہ ہو
سینۂ شمشیر میں باقی ہے دم شمشیر کا


شہر کا منظر وبال جاں ہے میرے واسطے
بن گیا وجہ سکوں حلقہ مری زنجیر کا


سر پھری آندھی کی زد پر جب بھی کرتا ہوں سفر
رخ بدل دیتا ہے میرا عزم خود تقدیر کا