بلائے جاں ہے ثمر بد حواس ہونے کا

بلائے جاں ہے ثمر بد حواس ہونے کا
نتیجہ دیکھ لو تم خود اداس ہونے کا


خط محیط ہے حبل الورید کے ہے قریب
یقین رکھ تو اسے اپنے پاس ہونے کا


ہوئے ہیں نیم برہنہ ہوس نے کھیتوں میں
دیا نہ موقع ہی پیدا کپاس ہونے کا


ہر اک خیال ہے نفس شریر کے تابع
مگر ہے دعویٰ اسے حق شناس ہونے کا


لپک کے چھین لیا اس قدر وہ پیاسا تھا
یہ اہتمام تھا خالی گلاس ہونے کا


نہ پوچھو مجھ سے میں تشریح کر نہیں سکتا
ہے حادثہ ہی عجب قید یاس ہونے کا


مذاق عیش کا اس درجہ گر گیا ساحلؔ
تماشا ہوتا ہے اب بے لباس ہونے کا