دیتے ہیں جس کو خون جگر کم بہت ہی کم
دیتے ہیں جس کو خون جگر کم بہت ہی کم
آتے ہیں اس شجر پہ ثمر کم بہت ہی کم
باقی ہیں اب بھی دل پہ مرے زخم حادثات
احساس درد تو ہے مگر کم بہت ہی کم
یہ منحصر ہے کسب حلال و حرام پر
ہوتا ہے اب دعا میں اثر کم بہت ہی کم
واعظ کی گفتگو میں جو دام فریب ہے
پاتے ہیں اس سے لوگ مفر کم بہت ہی کم
غواص بحر علم ہیں گرداب حرص میں
بازار میں ہیں لعل و گہر کم بہت ہی کم
احساس جن کے دل میں ہو کرب یتیم کا
اس عہد میں ہیں ایسے بشر کم بہت ہی کم
ساحلؔ جو مل گیا ہے تو کچھ قدر کیجئے
اس طرح کے ہیں اہل ہنر کم بہت ہی کم