یہ کیسا ظلم و ستم بد قماش کرتا ہے
یہ کیسا ظلم و ستم بد قماش کرتا ہے
وہ بے گناہ کا دل پاش پاش کرتا ہے
سکون قلب سے وہ شخص ہو گیا محروم
ہوس کی قید میں فکر معاش کرتا ہے
ملا ہے آج سبب یہ شکست پیہم کا
مرا ہی دوست مرے راز فاش کرتا ہے
یہ تیر اس کے تقدس کو کر گیا مجروح
وہ بات کرتا ہے جب دل خراش کرتا ہے
اسے مزاج منافق سے خاص نسبت ہے
وہ وعدہ کرکے بھی اکثر نراش کرتا ہے
یہ ارد گرد ہی رہتی ہے اس کے اے ساحلؔ
عجیب شخص ہے نیکی تلاش کرتا ہے