کاظم جرولی کی غزل

    ہر طرف لو ہے یہاں پروائیوں میں چل کہیں

    ہر طرف لو ہے یہاں پروائیوں میں چل کہیں جل نہ جائے تیرے نازک جسم کا صندل کہیں منتظر ہیں دھوپ کا تحفہ لئے سب راستے آؤ چل کر بیٹھ لیں سائے میں پل دو پل کہیں گیت کچھ مدھم سروں میں گائیں موجوں سے کہو ہو نہ جائیں صبح تک مانجھی کے بازو شل کہیں اتنے لمبے ہیں سمندر سے یہاں تک فاصلے ایسا ...

    مزید پڑھیے

    نحیف و زار صدا تھک کے بیٹھ جاتی ہے

    نحیف و زار صدا تھک کے بیٹھ جاتی ہے سر زباں ہی دعا تھک کے بیٹھ جاتی ہے بہت کٹھن ہے عزیزو ہماری ہم سفری ہمارے ساتھ ہوا تھک کے بیٹھ جاتی ہے نہ اتنا رخت سفر دیں سمندروں سے کہو میان راہ گھٹا تھک کے بیٹھ جاتی ہے ہر ایک بار ابھرتا ہے آفتاب وفا ہر ایک بار جفا تھک کے بیٹھ جاتی ہے یہیں ...

    مزید پڑھیے

    سامنے جیسی چمک اور نہ جوہر دیکھا

    سامنے جیسی چمک اور نہ جوہر دیکھا آئینہ میں نے کئی بار پلٹ کر دیکھا کبھی طوفاں کبھی ساحل کبھی گوہر دیکھا رات بھر خواب میں پیاسے نے سمندر دیکھا کیا ملے گا بھلا انسان کے چہرے کا سراغ جب بھی دیکھا مجھے دنیا نے تو بے سر دیکھا ریگ صحرا بھی اچھلنے لگی پانی کی طرح جب سرابوں پہ کبھی ...

    مزید پڑھیے

    قافلہ جا کے اسی دشت میں ٹھہرا اپنا

    قافلہ جا کے اسی دشت میں ٹھہرا اپنا خود پہ رکھتے ہیں جہاں پیڑ بھی سایا اپنا اس جگہ لے کے مجھے تشنہ لبی آئی ہے خود ہی پی لیتا ہے پانی جہاں دریا اپنا ہم کسی غیر کے شرمندۂ احسان نہ ہوئے ہم نے خود بڑھ کے اٹھایا ہے جنازا اپنا اگتی رہتی ہیں یہاں شمس و قمر کی فصلیں کیا کمی ہم کو سلامت ...

    مزید پڑھیے

    کیا دکھا سکتا ہے کوئی معجزے اسی کروڑ

    کیا دکھا سکتا ہے کوئی معجزے اسی کروڑ کیا کبھی حل ہو سکیں گے مسئلے اسی کروڑ سوچئے کیونکر کٹے گا وقت کا لمبا سفر رہنما کوئی نہیں اور قافلے اسی کروڑ کوئی بھی آنسو تمہارے پونچھنے والا نہیں کہنے کو ماں ہیں تمہارے لاڈلے اسی کروڑ اس کے ہونٹوں پر جگانا ہے مسرت کی لکیر جس کے سینے میں ...

    مزید پڑھیے

    میں دشمنی ہوں محبت ہوں اجنبی ہوں میں

    میں دشمنی ہوں محبت ہوں اجنبی ہوں میں یہی ثبوت ہیں میرے کہ آدمی ہوں میں بجھا سکے گا نہ مجھ کو تمام آب جہاں میان دشت بہتر کی تشنگی ہوں میں مرا خیال مری سوچ ہے کتاب مری خدائے فکر کا بھیجا ہوا نبی ہوں میں نگاہ کی نہ خلاف شریعت ادبی کسی کے حسن غزل پر کہ متقی ہوں میں مرے خیال سے روشن ...

    مزید پڑھیے

    ہم اندھیرے میں آ نہیں سکتے

    ہم اندھیرے میں آ نہیں سکتے اپنا سایہ مٹا نہیں سکتے آندھیاں چھین لے گئیں پتے اب شجر گنگنا نہیں سکتے موجیں اپنی ہیں اپنا دریا ہے پیاس پھر بھی بجھا نہیں سکتے چھیننے والو دوسروں کی خوشی تم کبھی مسکرا نہیں سکتے پھول کاغذ کے اپنے ہونٹوں تک تتلیوں کو بلا نہیں سکتے قاتلو ننھے ...

    مزید پڑھیے

    مسافران عشق کو وہ دشت وہ دیار دے

    مسافران عشق کو وہ دشت وہ دیار دے برہنگی کے عہد میں جو چادر غبار دے سحر کی روشنی میں دیکھ زندگی کی میتیں یہ حادثوں کا شہر جب لباس شب اتار دے نہ جانے کب سے زندگی کو انتظار ہے مرا پتا نہیں کہاں ہوں میں کوئی مجھے پکار دے یہ سچ ہے زندگی مرے قدم کی جنبشوں میں ہے مگر ذرا صلیب سے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ہوئی ہے سایہ فگن صبر کی قبا مجھ پر

    ہوئی ہے سایہ فگن صبر کی قبا مجھ پر چلائے تیر کہو آ کے حر ملا مجھ پر کھنچا ہوا ہے مرے گرد مامتا کا حصار اثر کہاں سے کرے کوئی بد دعا مجھ پر مٹا سکی نہ مرے پاؤں کی لکیریں تک ہزار ریت اڑاتی رہی ہوا مجھ پر مرے وجود سے آگے نہ تھی کوئی منزل اداسیوں کا سفر ختم ہو گیا مجھ پر اسی کو سارے ...

    مزید پڑھیے

    لہو میں غرق ادھوری کہانیاں نکلیں

    لہو میں غرق ادھوری کہانیاں نکلیں دہن سے ٹوٹی ہوئی سرخ چوڑیاں نکلیں میں جس زمین پہ صدیوں پھرا کیا تنہا اسی زمین سے کتنی ہی بستیاں نکلیں جہاں محال تھا پانی کا ایک قطرہ بھی وہاں سے ٹوٹی ہوئی چند کشتیاں نکلیں مسل دیا تھا سر شام ایک جگنوں کو تمام رات خیالوں سے بجلیاں نکلیں چرا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3