Kaif Moradaabadi

کیف مرادآبادی

کیف مرادآبادی کی غزل

    زندگی کا کوئی حس کیسے ادا کرتے ہیں

    زندگی کا کوئی حس کیسے ادا کرتے ہیں جو محبت نہیں کرتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں درس عبرت ہے دم صبح نزول شبنم گلستاں روتا ہے اور پھول ہنسا کرتے ہیں طالبان کرم یار طلب سے پہلے اپنے دامن کی طرف دیکھ لیا کرتے ہیں ان کی مرضی ہے ہمیں یاد کریں یا نہ کریں ہم بہ ہر حال انہیں یاد کیا کرتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ سوچتا ہوں کہ خود عارف حیات بھی ہے

    یہ سوچتا ہوں کہ خود عارف حیات بھی ہے بشر جو محرم اسرار کائنات بھی ہے نفس نفس میں رہے کیوں نہ اک جہان صفات مری نگاہ میں تنویر حسن ذات بھی ہے دلوں کو مل نہیں سکتی تھی عشرت ابدی ہزار شکر محبت میں غم کی رات بھی ہے وہ اک خیال کہ جس نے غم حیات دیا وہی خیال علاج غم حیات بھی ہے جو سر عشق ...

    مزید پڑھیے

    جو اٹھی تھی میری طرف کبھی دل معتبر کی تلاش میں

    جو اٹھی تھی میری طرف کبھی دل معتبر کی تلاش میں میری ساری عمر گزر گئی اسی اک نظر کی تلاش میں غم عشق ہی کو میں کیا کہوں ترے حسن کو بھی نہیں سکوں کبھی اس نظر کی تلاش میں کبھی اس نظر کی تلاش میں جو یہی جنوں ہے تو مل چکی ہمیں منزل غم عاشقی اسی رہ گزر سے گزر گئے اسی رہ گزر کی تلاش میں سر ...

    مزید پڑھیے

    بڑھے چلو کہ زمانے کو یہ دکھانا ہے

    بڑھے چلو کہ زمانے کو یہ دکھانا ہے جہاں ہمارے قدم ہیں وہیں زمانہ ہے یہ حسن و عشق کی تفریق اک بہانہ ہے کہیں نظر کو کہیں دل کو آزمانا ہے اب اس جنون طلب کا کوئی ٹھکانہ ہے کہ اپنے آپ کو کھو کر بھی ان کو پانا ہے بس ایک عشق ہی ایسا شراب خانہ ہے جہاں سرور کا مفہوم ہوش آنا ہے الٰہی تمکنت ...

    مزید پڑھیے

    کوئی نظر کسی عالم میں کامیاب نہیں

    کوئی نظر کسی عالم میں کامیاب نہیں طلسم صورت و معنی ترا جواب نہیں نفس نفس میں اگر ذوق انقلاب نہیں فریب مستیٔ پندار ہے شباب نہیں بقدر ظرف طلب گار ہے عروج و زوال زمیں پہ ہے وہی ذرہ جو آفتاب نہیں ہزار سال بھی غفلت کے دے نہیں سکتے اس ایک لمحہ کی قیمت جو صرف خواب نہیں ہجوم شوق میں ...

    مزید پڑھیے

    رسائی سعئ نا مشکور ہو جائے تو کیا ہوگا

    رسائی سعئ نا مشکور ہو جائے تو کیا ہوگا قدم رکھتے ہی منزل دور ہو جائے تو کیا ہوگا تجلی خود حجاب نور ہو جائے تو کیا ہوگا بظاہر بھی کوئی مستور ہو جائے تو کیا ہوگا حقیقت میں کوئی مہجور ہو جائے تو کیا ہوگا نظر سے دور دل سے دور ہو جائے تو کیا ہوگا ابھی تو عارضی ہے دوست بن کر دشمنی ...

    مزید پڑھیے

    وہ غم دے رہے ہیں خوشی ہو رہی ہے

    وہ غم دے رہے ہیں خوشی ہو رہی ہے حقیقت میں اب عاشقی ہو رہی ہے ابھی محتسب میکدے میں نہ آئیں ٹھہر جائیے مے کشی ہو رہی ہے محبت میں کتنے ہی منصور گم ہیں خودی بھی یہاں بے خودی ہو رہی ہے نہ ذوق طلب ہے نہ احساس منزل یہ جینا ہے یا خودکشی ہو رہی ہے کوئی جرأتیں دیکھے اہل ہوس کی محبت سے بھی ...

    مزید پڑھیے

    ایک اک لمحہ گزارا جا رہا ہے ہوش میں

    ایک اک لمحہ گزارا جا رہا ہے ہوش میں اے زہے قسمت جو ہیں طوفان کی آغوش میں اب یہ عالم ہے ہمارا بندگی کے جوش میں ایک سجدہ بے خودی میں ایک سجدہ ہوش میں مصلحت کچھ بھی نہ کہنے دے تو اس کا کیا علاج جانے کتنی داستانیں ہیں لب خاموش میں اف یہ سیلاب حوادث ہائے یہ طوفان غم یوں بھی لاتا ہوگا ...

    مزید پڑھیے

    دل غم سے بھی بیزار ہے معلوم نہیں کیوں

    دل غم سے بھی بیزار ہے معلوم نہیں کیوں یہ عیش بھی اب یار ہے معلوم نہیں کیوں عالم ہمہ دل دار ہے معلوم نہیں کیوں جو غم ہے غم یار ہے معلوم نہیں کیوں اب حسن بھی کچھ سامنے آنے میں ہے محتاط اب عشق بھی خوددار ہے معلوم نہیں کیوں وہ عشق جو ہر جلوۂ رنگیں پہ فدا ہے خود اپنا طلب گار ہے معلوم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3