رسائی سعئ نا مشکور ہو جائے تو کیا ہوگا

رسائی سعئ نا مشکور ہو جائے تو کیا ہوگا
قدم رکھتے ہی منزل دور ہو جائے تو کیا ہوگا


تجلی خود حجاب نور ہو جائے تو کیا ہوگا
بظاہر بھی کوئی مستور ہو جائے تو کیا ہوگا


حقیقت میں کوئی مہجور ہو جائے تو کیا ہوگا
نظر سے دور دل سے دور ہو جائے تو کیا ہوگا


ابھی تو عارضی ہے دوست بن کر دشمنی کرنا
جو دنیا کا یہی دستور ہو جائے تو کیا ہوگا


یہ سب سے چھپ کے خود کو آئنے میں دیکھنے والے
نظر خلوت میں برق طور ہو جائے تو کیا ہوگا


لئے جاتا ہے عزم ترک الفت ان کی محفل میں
نظر اٹھتے ہی دل مجبور ہو جائے تو کیا


نظام عاشقی قائم ہے ان کی بے نیازی سے
کسی کی التجا منظور ہو جائے تو کیا ہوگا


ہر اک کو کیفؔ تم کیوں اپنا افسانہ سناتے ہو
غم الفت غم جمہور ہو جائے تو کیا ہوگا