جو اٹھی تھی میری طرف کبھی دل معتبر کی تلاش میں

جو اٹھی تھی میری طرف کبھی دل معتبر کی تلاش میں
میری ساری عمر گزر گئی اسی اک نظر کی تلاش میں


غم عشق ہی کو میں کیا کہوں ترے حسن کو بھی نہیں سکوں
کبھی اس نظر کی تلاش میں کبھی اس نظر کی تلاش میں


جو یہی جنوں ہے تو مل چکی ہمیں منزل غم عاشقی
اسی رہ گزر سے گزر گئے اسی رہ گزر کی تلاش میں


سر منزل آ کے پتا چلا کہ قدم قدم پہ فریب تھا
کہیں ہم سفر کی امید میں کہیں ہم سفر کی تلاش میں


اسے وصل کیسا حقیقتاً غم ہجر کا بھی تو حق نہیں
جو تمام رات گزار دے مگر اک سحر کی تلاش میں


ہے عجیب قسمت کیفؔ بھی یہ ملا ہے حاصل بندگی
کہ مذاق سجدہ بھی کھو دیا کسی سنگ در کی تلاش میں