قانون نہیں کوئی فطرت کے سوا
قانون نہیں کوئی فطرت کے سوا دنیا نہیں کچھ نمود طاقت کے سوا قوت حاصل کر اور مولیٰ بن جا معبود نہیں ہے کوئی قوت کے سوا
سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف
One of the most fiery progressive poets who is known as Shayar-e-Inquilab (revolutionary poet)
قانون نہیں کوئی فطرت کے سوا دنیا نہیں کچھ نمود طاقت کے سوا قوت حاصل کر اور مولیٰ بن جا معبود نہیں ہے کوئی قوت کے سوا
ہر علم و یقیں ہے اک گماں اے ساقی ہر آن ہے اک خواب گراں اے ساقی اپنے کو کہیں رکھ کے میں بھولا ہوں ضرور لیکن یہ نہیں یاد کہاں اے ساقی
دل رسم کے سانچے میں نہ ڈھالا ہم نے اسلوب سخن نیا نکالا ہم نے ذرات کو چھوڑ کر حریفوں کے لیے خورشید پہ بڑھ کے ہاتھ ڈالا ہم نے
اے زاہد حق شناس والے عالم دیں حضرت کا مقام ہے فقط خلد بریں انسان ابھی چل رہا ہے گھٹنوں گھٹنوں اور آپ کو ہے قرب قیامت کا یقیں
یہ بزم گیر عمل ہے بے نغمہ و صوت اس دائرے میں ولولۂ روح ہے فوت یک رنگی و یکسانیٔ اسلوب حیات دراصل ہے ایک سانس لیتی ہوئی موت
ناگن بن کر مجھے نہ ڈسنا بادل باراں کی کسوٹی پہ نہ کسنا بادل وہ پہلے پہل جدا ہوئے ہیں مجھ سے اس دیس میں اب کے نہ برسنا بادل
اے مرد خدا نفس کو اپنے پہچان انسان یقین ہے اور اللہ گمان میری بیعت کے واسطے ہاتھ بڑھا پڑھ کلمۂ لاالہ الا انسان
بندے کیا چاہتا ہے دام و دینار یا دولت یا پندۂ زلف و رخسار معبود نہیں نہیں کوئی چیز نہیں الا آگاہیٔ رموز و اسرار
انسان کی تباہیوں سے کیوں ہلے دلگیر کاکل میں بدل جائے گی کل یہ زنجیر اس آدم فرسودہ کے زیر تخریب اک آدم نو کی ہو رہی ہے تعمیر
اس دہر میں اک نفس کا دھوکا ہوں میں بجلی ہوں بگولا ہوں چھلاوا ہوں میں گھبرائی ہوئی ہے جوش روح تحقیق ہر ذرہ پکارتا ہے دنیا ہوں میں