خشک سالی
اے دل افسردہ وہ اسرار باطن کیا ہوئے سوز کی راتیں کہاں ہیں ساز کے دن کیا ہوئے آنسوؤں کی وہ جھڑی وہ غم کا ساماں کیا ہوا تیرا ساون کا مہینہ چشم گریاں کیا ہوا کیا ہوئی بالائے سر وہ لطف یزداں کی گھٹا آسمان دل پہ وہ گھنگھور عرفاں کی گھٹا اب وہ نالوں کی گرج ہے اب نہ وہ شور فغاں اب نہ اٹھتا ...