آتے ہیں پہلے لب پہ سوالات خود بخود

آتے ہیں پہلے لب پہ سوالات خود بخود
پھر ہم کو سوجھتے ہیں جوابات خود بخود


سوچوں میں اپنے آپ اترتی ہے روشنی
جلتی ہے دل میں مشعل جذبات خود بخود


جب تک نہ لیں گے فہم و فراست سے کام ہم
بدلے گی کیسے صورت حالات خود بخود


قصر تصورات میں جب سے مقیم ہیں
ہوتی ہے روز ان سے ملاقات خودبخود


تنویر جن کی ہے مرے اک ایک لفظ میں
نازل ہوئی ہیں مجھ پہ وہ آیات خودبخود


چمکا ہے کس کی یاد کا سورج خیال میں
روشن ہوا ہے شہر خیالات خودبخود


شاہدؔ اسی کا نام ہے توفیق ایزدی
نکلا زباں سے حرف مناجات خودبخود