وہ مجھ میں تھا نہاں میں دیکھتا کیا
وہ مجھ میں تھا نہاں میں دیکھتا کیا
پس دیوار جاں میں دیکھتا کیا
کتاب زندگی زیر نظر تھی
حدیث دلبراں میں دیکھتا کیا
مجھے چلنا تھا اپنے راستے پر
نشان رفتگاں میں دیکھتا کیا
نظر میں تھا وہ مہتاب تمنا
جمال کہکشاں میں دیکھتا کیا
فنا کی زد پہ تھا بازار دنیا
یہاں سود و زیاں میں دیکھتا کیا
مری آنکھیں بھری تھیں آنسوؤں سے
سر شہر فغاں میں دیکھتا کیا
ٹھکانا تھا مرا دشت جنوں میں
خرد کی بستیاں میں دیکھتا کیا
مری مجبوریاں بھی کم نہیں تھیں
تری مجبوریاں میں دیکھتا کیا
اسے جب امتحاں لینا نہیں تھا
نصاب امتحاں میں دیکھتا کیا
مری پرواز تھی شاہدؔ فلک پر
زمیں کی پستیاں میں دیکھتا کیا