کب کا گزر چکا ہے وہ موسم شباب کا

کب کا گزر چکا ہے وہ موسم شباب کا
اب ذکر ہے فضول وفا کی کتاب کا


فرصت ملے تو دیکھ ذرا دل کا آئنہ
اس میں ہے عکس تیرے گناہ و ثواب کا


چپ چاپ حال اہل نظر دیکھتے رہو
ہے کس کے پاس وقت سوال و جواب کا


ہر شخص گھر گیا ہے نئے اضطراب میں
توڑا ہے جس نے قفل در اضطراب کا


رکھتا ہے تیرے روئے حسیں سے مشابہت
ہر شاخ پر سجا ہے جو چہرہ گلاب کا


کافی ہے اس کی ذات کے عرفان کے لیے
موج ہوا کے دوش پہ اڑنا سحاب کا


شاہدؔ جنہیں خبر ہے رموز حیات کی
رکھتے نہیں حساب غم بے حساب کا