کیوں قتل کے ارمان میں آزار اٹھائیں

کیوں قتل کے ارمان میں آزار اٹھائیں
گردن مری حاضر ہے وہ تلوار اٹھائیں


روکے سے مری طبع رواں رک نہ سکے گی
رستے میں مرے لاکھ وہ دیوار اٹھائیں


جو دل میں تمہارے ہے بتا کیوں نہیں دیتے
صدمہ جو اٹھانا ہے تو یکبار اٹھائیں


کیوں لوگ ہیں خاموش زبوں حال پہ اپنے
آواز سر کوچہ و بازار اٹھائیں


خود ہی جو پس پردۂ اسرار چھپے ہیں
وہ کیسے بھلا پردۂ اسرار اٹھائیں


نیلام جو کرتے ہیں یہاں جنس وفا کو
ممکن ہی نہیں ناز خریدار اٹھائیں


یہ جرم محبت نہیں واعظ کا مقدر
یہ بار گناہ ہم سے گنہ گار اٹھائیں


پھرتے ہیں جو آزاد انہیں کیسے خبر ہو
زنداں میں جو تکلیف گرفتار اٹھائیں


شاہدؔ یہی لکھا ہے مقدر میں ہمارے
صدمات زمانے میں لگاتار اٹھائیں