چھپی دل میں جو یاد یار ہوگی
چھپی دل میں جو یاد یار ہوگی
مسافت اور بھی دشوار ہوگی
خبر کیا تھی کہ حائل راستے میں
پس دیوار بھی دیوار ہوگی
گلہ انکار کا اس سے کروں کیا
کوئی تو صورت انکار ہوگی
اسے جب ماننا کچھ بھی نہیں ہے
دلالت بھی مری بیکار ہوگی
مجھے معلوم ہی کب تھا یہ پہلے
خرد خود ہی جنوں آثار ہوگی
سر محفل مری آتش بیانی
کسی کا شعلۂ رخسار ہوگی
وہ گل مہکے گا جب دل کے چمن میں
مری ہر سانس خوشبو دار ہوگی
غرور سر بلندی کیا کہ اک دن
نہ سر ہوگا نہ یہ دستار ہوگی
مری خاک بدن اک روز شاہدؔ
برائے کوچۂ دل دار ہوگی