تبدیلیوں کی راہ پہ چلنے تو دے مجھے

تبدیلیوں کی راہ پہ چلنے تو دے مجھے
خود کو بدل رہا ہوں بدلنے تو دے مجھے


بچہ نہیں ہوں میں جو بھٹک جاؤں گا کہیں
تنہا رہ حیات میں چلنے تو دے مجھے


جلتا ہوا چراغ اگر ہے مرا وجود
پھر اپنے دل کے طاق میں جلنے تو دے مجھے


گر میری دسترس میں نہیں آسماں کا چاند
مہتاب صورتوں سے بہلنے تو دے مجھے


بن جاؤں گا کرن تری صبح جمال کی
تو اپنے رنگ روپ میں ڈھلنے تو دے مجھے


بار غم حیات اٹھا لوں گا اور بھی
اے انقلاب دہر سنبھلنے تو دے مجھے


دم توڑ دیں گی خود ہی پرانی روایتیں
آئین ملک شوق بدلنے تو دے مجھے


مل جائے گا مجھے بھی اجالوں کا راستہ
زندان تیرگی سے نکلنے تو دے مجھے