کب سے ضد پہ اڑا ہوا ہے
کب سے ضد پہ اڑا ہوا ہے ایسے بھی کوئی بڑا ہوا ہے مجھ سے اونچا ہونے کو وہ پنجوں کے بل کھڑا ہوا ہے
کب سے ضد پہ اڑا ہوا ہے ایسے بھی کوئی بڑا ہوا ہے مجھ سے اونچا ہونے کو وہ پنجوں کے بل کھڑا ہوا ہے
چلی ہے یہ کیسی ہوا خوب صورت کہ دل کا یہ موسم ہوا خوب صورت یہ دنیا بنائی ہے کیا خوب صورت کہ خود ہوگا کتنا خدا خوب صورت گھڑی دو گھڑی ہی جلا ہے دیا ہاں لیکن جلا ہے دیا خوب صورت کہانی محبت کی کچھ بھی نہیں بناتی ہے اس کو وفا خوب صورت کس کی طرف یہ نظر اٹھ گئی یہ کس کا ہے چہرہ نیا خوب ...
تماشہ گر ہمیشہ سے پس دیوار ہوتا ہے کہانی خود نہیں بنتی کہانی کار ہوتا ہے مری حیرانیوں پہ مسکرا کے مجھ سے ہے کہتا یہ دنیا ہے یہاں سب کچھ مری سرکار ہوتا ہے
الجھے رستوں پہ جا نہیں سکتی تیری باتوں میں آ نہیں سکتی آنکھ سے دل دکھائی دیتا ہے کوئی دھوکہ میں کھا نہیں سکتی
ہم بیٹھے ہیں آس لگائے اس کی مرضی آئے نہ آئے کیسا خواب اور نیند کہاں کی مدت ہو گئی آنکھ لگائے میرا پتا نہ دینا اس کو وہ جب مجھ کو ڈھونڈنے آئے اس کا برف سا چرنے من میں اک انجانی آگ لگائے جس رستے بھی جائیں محبت راہ میں بیٹھی گھات لگائے کون بھلا آزمائے کسی کو کون بھلا اب دیا ...
کس قدر عجیب ہے دیکھتا نہیں مجھ کو بولتا نہیں مجھ سے میں جو بات کرتی ہوں ان سنی سی کرتا ہے دور دور رہتا ہے جانے کس سے ڈرتا ہے بے خبر ہے وہ لیکن یوں گریز کرنے سے راستے بدلنے سے کون دل سے نکلا ہے
اک بات کہنی ہے محبت کرنے نکلے ہو تو اتنا ذہن میں رکھنا انا کی بات نہ سننا صلے کی آس نہ رکھنا
اب کے ہم نے سوچا ہے جس نے بھی رلایا ہو لاکھ دل دکھایا ہو مسکرا کے ملنا ہے اب کسی امید کا محل کھڑا نہیں کرنا خود سے اب نہیں لڑنا تم سے کچھ نہیں کہنا اب گلہ نہیں کرنا یاد کے کنارے اور خواب کے جزیرے تو کب ہیں اختیار میں ہاں مگر حقیقت کے راستوں پہ بھول کر تم سے اب نہیں ملنا جھیل جیسی ...
نیند آتی نہیں خواب کے خوف سے خواب دیکھا تو پھر آس لگ جائے گی آس ٹوٹی تو آنکھوں میں چبھتی ہوئی کرچیاں خوں رلائیں گی آنکھوں کو بے نور کر جائیں گی خوش گمانی کی اڑتی ہوئی تتلیاں رنگ کھو دیں گی بے موت مر جائیں گی اس لیے نیند سے میری بنتی نہیں آنکھ لگتی نہیں خواب کے خوف سے بھول کر بھی ...