گریز
کس قدر عجیب ہے دیکھتا نہیں مجھ کو بولتا نہیں مجھ سے میں جو بات کرتی ہوں ان سنی سی کرتا ہے دور دور رہتا ہے جانے کس سے ڈرتا ہے بے خبر ہے وہ لیکن یوں گریز کرنے سے راستے بدلنے سے کون دل سے نکلا ہے
کس قدر عجیب ہے دیکھتا نہیں مجھ کو بولتا نہیں مجھ سے میں جو بات کرتی ہوں ان سنی سی کرتا ہے دور دور رہتا ہے جانے کس سے ڈرتا ہے بے خبر ہے وہ لیکن یوں گریز کرنے سے راستے بدلنے سے کون دل سے نکلا ہے
اک بات کہنی ہے محبت کرنے نکلے ہو تو اتنا ذہن میں رکھنا انا کی بات نہ سننا صلے کی آس نہ رکھنا
اب کے ہم نے سوچا ہے جس نے بھی رلایا ہو لاکھ دل دکھایا ہو مسکرا کے ملنا ہے اب کسی امید کا محل کھڑا نہیں کرنا خود سے اب نہیں لڑنا تم سے کچھ نہیں کہنا اب گلہ نہیں کرنا یاد کے کنارے اور خواب کے جزیرے تو کب ہیں اختیار میں ہاں مگر حقیقت کے راستوں پہ بھول کر تم سے اب نہیں ملنا جھیل جیسی ...
نیند آتی نہیں خواب کے خوف سے خواب دیکھا تو پھر آس لگ جائے گی آس ٹوٹی تو آنکھوں میں چبھتی ہوئی کرچیاں خوں رلائیں گی آنکھوں کو بے نور کر جائیں گی خوش گمانی کی اڑتی ہوئی تتلیاں رنگ کھو دیں گی بے موت مر جائیں گی اس لیے نیند سے میری بنتی نہیں آنکھ لگتی نہیں خواب کے خوف سے بھول کر بھی ...