Farzana Naz

فرزانہ ناز

فرزانہ ناز کی نظم

    گریز

    کس قدر عجیب ہے دیکھتا نہیں مجھ کو بولتا نہیں مجھ سے میں جو بات کرتی ہوں ان سنی سی کرتا ہے دور دور رہتا ہے جانے کس سے ڈرتا ہے بے خبر ہے وہ لیکن یوں گریز کرنے سے راستے بدلنے سے کون دل سے نکلا ہے

    مزید پڑھیے

    سنو

    اک بات کہنی ہے محبت کرنے نکلے ہو تو اتنا ذہن میں رکھنا انا کی بات نہ سننا صلے کی آس نہ رکھنا

    مزید پڑھیے

    اب گلہ نہیں کرنا

    اب کے ہم نے سوچا ہے جس نے بھی رلایا ہو لاکھ دل دکھایا ہو مسکرا کے ملنا ہے اب کسی امید کا محل کھڑا نہیں کرنا خود سے اب نہیں لڑنا تم سے کچھ نہیں کہنا اب گلہ نہیں کرنا یاد کے کنارے اور خواب کے جزیرے تو کب ہیں اختیار میں ہاں مگر حقیقت کے راستوں پہ بھول کر تم سے اب نہیں ملنا جھیل جیسی ...

    مزید پڑھیے

    خوف

    نیند آتی نہیں خواب کے خوف سے خواب دیکھا تو پھر آس لگ جائے گی آس ٹوٹی تو آنکھوں میں چبھتی ہوئی کرچیاں خوں رلائیں گی آنکھوں کو بے نور کر جائیں گی خوش گمانی کی اڑتی ہوئی تتلیاں رنگ کھو دیں گی بے موت مر جائیں گی اس لیے نیند سے میری بنتی نہیں آنکھ لگتی نہیں خواب کے خوف سے بھول کر بھی ...

    مزید پڑھیے