Faizul Amin Faiz

فیض الامین فیض

فیض الامین فیض کی غزل

    بدل رہا ہے زمانہ تو میرے ٹھینگے سے

    بدل رہا ہے زمانہ تو میرے ٹھینگے سے ہے میرا طور پرانا تو میرے ٹھینگے سے جو چار پیسے ہیں مٹھی میں بس وہ میرے ہیں ہے تیرے پاس خزانہ تو میرے ٹھینگے سے کبھی لکیر کا بنتا نہیں فقیر وہ شخص اسے نہ مانو سیانا تو میرے ٹھینگے سے مری کہانی حقیقت پہ منحصر ہے مگر تجھے لگے ہے فسانہ تو میرے ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے بھی نہیں ہم صبر کی تلقین لیتے ہیں

    کسی سے بھی نہیں ہم صبر کی تلقین لیتے ہیں ہمیں ملتی نہیں جو چیز اس کو چھین لیتے ہیں بڑھاپا آ گیا لیکن نہیں بدلا مزاج ان کا ابھی تک کپڑے وہ اپنے لیے رنگین لیتے ہیں فقیروں کو کبھی در سے نہ خالی لوٹنے دینا دعائیں دیتے ہیں خیرات جب مسکین لیتے ہیں وہ سارے لوگ رنج و غم سے پا جاتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    زہر پر زہر چل نہیں سکتا

    زہر پر زہر چل نہیں سکتا سانپ بچھو نگل نہیں سکتا تجربہ لاکھ کیجئے اس پر پھر بھی پتھر پگھل نہیں سکتا بھول بیٹھوں گا تجھ کو جیتے جی میں تو اتنا بدل نہیں سکتا غیر کی ٹانگ کھینچ کر بھائی کوئی آگے نکل نہیں سکتا اس کی مرضی اگر نہیں ہوگی گرنے والا سنبھل نہیں سکتا نوچ سکتا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    ہم کسی بات پر نہیں روتے

    ہم کسی بات پر نہیں روتے اپنی اوقات پر نہیں روتے تم اگر ہوتے کربلا والے جنگ میں مات پر نہیں روتے صبح کو شام کی نہیں پروا دن بھی اب رات پر نہیں روتے زندگی ان پہ ناز کرتی ہے جو بھی حالات پر نہیں روتے ہجر کا جشن ہم منائیں کیا سرد جذبات پر نہیں روتے ان کا دل دل نہیں ہے پتھر ہے جو ...

    مزید پڑھیے

    ہنسا تھا دو گھڑی برسوں مگر آنسو بہایا تھا

    ہنسا تھا دو گھڑی برسوں مگر آنسو بہایا تھا میں جب چھوٹا تھا اک لڑکی سے میں نے دل لگایا تھا مرے پیروں کے نیچے کی زمیں بنجر تھی کچھ اتنی صبا نے ایک گل کتنے زمانے میں کھلایا تھا سلگتی دھوپ میں سوچو سفر کیسے کٹا ہوگا مری منزل تھی کیا اور تم نے کیا رستہ دکھایا تھا محبت آگ ہے ایسی جو ...

    مزید پڑھیے

    کسی آسیب کا سایہ ہے اس پر لوگ کہتے ہیں

    کسی آسیب کا سایہ ہے اس پر لوگ کہتے ہیں پڑا رہتا ہے وہ حجرے کے اندر لوگ کہتے ہیں مری بستی میں اک بڑھیا ہے جو سچ مچ کی ڈائن ہے وہ کھا جاتی ہے بچوں کو پکڑ کر لوگ کہتے ہیں ہر اک رشتہ یہاں قائم ہے بس مطلب پرستی پر زمانے میں یہی رائج ہے کلچر لوگ کہتے ہیں معزز شخصیت ہے شہر کا اب نامور ...

    مزید پڑھیے

    کڑی تھی دھوپ سر چکرا رہا تھا

    کڑی تھی دھوپ سر چکرا رہا تھا میں بھوکا تھا بہت گھبرا رہا تھا تمہارا شہر کیا تھا کیا بتاؤں تماشہ ہر کوئی دکھلا رہا تھا تھے اس کے ہاتھ میں کشکول لیکن وہ مہر و ماہ کو شرما رہا تھا انا کا سانپ میں نے مار ڈالا بہت نقصان یہ پہنچا رہا تھا امیر شہر سے یہ کون پوچھے ستم کیوں مفلسوں پر ...

    مزید پڑھیے

    قدرت کا سرسبز بچھونا اچھا لگتا ہے

    قدرت کا سرسبز بچھونا اچھا لگتا ہے کھلی فضا میں گھاس پہ سونا اچھا لگتا ہے شام ڈھلے جب شاخ پہ چڑیاں نغمے گاتی ہیں مجھ کو تیرے ساتھ میں ہونا اچھا لگتا ہے ہر ایک چیز جو اپنی جگہ پر سجی سجائی ہو خود ہی گھر کا کونا کونا اچھا لگتا ہے تم کیا جانو رہ رہ کیسے پاتے ہیں منزل تم کو تو بس خواب ...

    مزید پڑھیے

    شام و سحر یوں چپکے چپکے رونا کیا

    شام و سحر یوں چپکے چپکے رونا کیا کسی کی خاطر اتنا پاگل ہونا کیا ہوش گنوا دیتے ہیں تم سے مل کر لوگ کر دیتے ہو تم بھی جادو ٹونا کیا پیار وہ شے ہے جس کا کوئی مول نہیں اس کے آگے چاندی کیا ہے سونا کیا جب جی چاہا تم نے اس کو توڑ دیا جب ہی بولو دل تھا میرا کھلونا کیا فیضؔ یتیم و بیکس سے ...

    مزید پڑھیے

    تولتا کیا مجھ کو کوئی جوہری میزان میں

    تولتا کیا مجھ کو کوئی جوہری میزان میں میں تھا میرا اور پڑا تھا کوئلے کی کان میں تم سے تو ہوتا نہیں ہے اعتراف فن مرا چند جملے میں ہی کہتا ہوں تمہاری شان میں برسر پیکار اس کو دیکھ کر سب شاد تھے جا لگا ساحل سے وہ تنکا مگر طوفان میں سج رہی ہیں پھر سیاسی منڈیاں چاروں طرف دیکھنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2