کڑی تھی دھوپ سر چکرا رہا تھا

کڑی تھی دھوپ سر چکرا رہا تھا
میں بھوکا تھا بہت گھبرا رہا تھا


تمہارا شہر کیا تھا کیا بتاؤں
تماشہ ہر کوئی دکھلا رہا تھا


تھے اس کے ہاتھ میں کشکول لیکن
وہ مہر و ماہ کو شرما رہا تھا


انا کا سانپ میں نے مار ڈالا
بہت نقصان یہ پہنچا رہا تھا


امیر شہر سے یہ کون پوچھے
ستم کیوں مفلسوں پر ڈھا رہا تھا


لگے ٹھوکر تو خود ہی تم سنبھل جاؤ
سفر کا تجربہ بتلا رہا تھا


اکیلی تھی کوئی لڑکی سڑک پر
بدن جس کا مجھے للچا رہا تھا


یہ کیسا خواب میں نے فیضؔ دیکھا
سمندر میری جانب آ رہا تھا