بدل رہا ہے زمانہ تو میرے ٹھینگے سے

بدل رہا ہے زمانہ تو میرے ٹھینگے سے
ہے میرا طور پرانا تو میرے ٹھینگے سے


جو چار پیسے ہیں مٹھی میں بس وہ میرے ہیں
ہے تیرے پاس خزانہ تو میرے ٹھینگے سے


کبھی لکیر کا بنتا نہیں فقیر وہ شخص
اسے نہ مانو سیانا تو میرے ٹھینگے سے


مری کہانی حقیقت پہ منحصر ہے مگر
تجھے لگے ہے فسانہ تو میرے ٹھینگے سے


تری پسند سے ملتی نہیں پسند مری
یہی ہے ایک بہانہ تو میرے ٹھینگے سے


عدو سے کرنا ہے سارا حساب چکتا فیضؔ
اگر وہ جائے گا تھانہ تو میرے ٹھینگے سے