ہنسا تھا دو گھڑی برسوں مگر آنسو بہایا تھا

ہنسا تھا دو گھڑی برسوں مگر آنسو بہایا تھا
میں جب چھوٹا تھا اک لڑکی سے میں نے دل لگایا تھا


مرے پیروں کے نیچے کی زمیں بنجر تھی کچھ اتنی
صبا نے ایک گل کتنے زمانے میں کھلایا تھا


سلگتی دھوپ میں سوچو سفر کیسے کٹا ہوگا
مری منزل تھی کیا اور تم نے کیا رستہ دکھایا تھا


محبت آگ ہے ایسی جو پانی سے نہیں بجھتی
زمانے نے عبث شعلے کو مٹھی میں دبایا تھا


میں خود محسوس کرتا ہوں کہ اب آزاد ہوں میں بھی
کہ پنجرا کھول کر میں نے پرندوں کو اڑایا تھا


مرے ہاتھوں پہ سوکھے پھول کی کچھ پتیاں رکھ کر
بچھڑتے وقت اس نے مجھ کو سینے سے لگایا تھا